علامہ صاحب سے ایک اور ملاقات!

September 17, 2021

گزشتہ روز علامہ شکم پرور لدھیانوی بہت دنوں بعد میری طرف تشریف فرما ہوئے۔ عیدالفطر، عیدالاضحی، ماہ رمضان اور محرم میں تو انہوں نے شکل ہی نہیں دکھائی اور اب تشریف لائے تو ان کا حجم پہلے سے بھی کہیں زیادہ تھا، میں نے ملاقات میں تاخیر کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا ’’تم جانتے ہو کہ بڑی عید پر قربانی کا گوشت، ماہ رمضان میں جگہ جگہ افطاریوں اور ماہ محرم میں نیاز کی تقسیم ہمارے اہلِ ثروت کرتے ہیں۔ بس ان سب کا ثواب کمانے کیلئے ان میں شرکت کرتا رہا، تم یاد تو آتے رہے ہو، مگر میں اتنا دنیا دار بھی نہیں ہوں کہ یاری دوستی کے چکر میں ان مقدس مہینوں میں خدا کی نعمتوں کی برکتوں سے محروم رہوں‘‘ میں نے عرض کی ’’علامہ صاحب، آپ چاہتے تو سحری اور افطار کے درمیانے وقفے میں مجھے شرف ملاقات بخش سکتے تھے، فرمایا ’’ماہ رمضان میں، میں مکروہات دنیا سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں‘‘ میں نے عرض کی کہ ’’حضرت آپ سے ملاقات کا میں محض اس لئے مشتاق تھا کہ ایک دفعہ مکروہات دنیا کو آپ کی صورت میں مجسم دیکھنا چاہتا تھا تاکہ اس کے بعد ہمیشہ کیلئے ان سےمتنفر ہو جائوں‘‘ اس پر علامہ صاحب نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا تو ان کی توند مبارک کے زیروبم سے کمرے میں ہلکے درجے کا زلزلہ محسوس ہوا، بولے ’’بس میں تم سے یہی سننا چاہتا تھا، اب ایک تم ہی تو رہ گئے ہو جو میرے ساتھ اس طرح کی لبرٹی لے سکتے ہو، ورنہ عقیدت مندوں نے تو میرا جینا حرام کیا ہوا ہے مجھے ہر وقت ان کے درمیان بہت معتبر بن کر رہنا پڑتا ہے‘‘۔ مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی، میں نے پوچھا ’’علامہ صاحب، آپ کے عقیدت مند بھی ہیں؟‘‘ کہنے لگے ’’تم مجھے کیا سمجھتے ہو، میں بازار میں نکل جائوں تو لوگ مجھے دیکھ کر احتراماً ادھر ادھر ہو جاتے ہیں، وہ میرا سامنا نہیں کرسکتے، کسی دکان پر جائوں تو دکاندار منہ دوسری طرف پھیر لیتا ہے، وہ میرے چہرے کی تجلیوں کی تاب نہیں لاسکتے، کسی دعوت میں جائوں تو میزبان دروازے پر ہی مجھے روک لیتا ہے اور کہتا ہے ’’علامہ صاحب، اندر آپ کے مرتبے کے لوگ نہیں ہیں آپ کا ان کے درمیان بیٹھنا سوئے ادب ہے۔ آپ یہیں کھڑے رہیں میں آپ کیلئے کھانا لیکر آتا ہوں‘‘ اور پھر وہ شاپر میں کھانا تھما کر اور بہت عقیدت سے خدا حافظ کہہ کر مجھے رخصت کرتا ہے۔

جیسا کہ میں نے آپ کو شروع میں بتایا کہ علامہ صاحب بہت دنوں کے بعد تشریف لائے تھے چنانچہ ان سے پوچھا ’’علامہ صاحب ماہ رمضان المبارک میں تو آپ افطاریوں اور سحریوں کے مزے لوٹتے رہے، اس کے بعد سے اب تک آپ ثواب سے محروم چلے آ رہے ہیں یا کوئی اور راستہ نکالا ہے‘‘ کہنے لگے ’’تمہیں پتہ ہے علامہ شکم پرور لدھیانوی کا ہر لمحہ نیکی کے کاموں میں صرف ہوتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’جی جی جی۔‘‘ بولے،’’ یہ کیا جی جی جی لگائی ہوئی ہے ، مجھے اس میں تمسخر کی جھلک نظر آئی ہے، تمہیں پتہ ہونا چاہئے میں نے ان دنوں ایک مسجد کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے‘‘ میرے ماشاءاللہ کہنے پر گویا ہوئے ’’لوگ ﷲسے دور ہوتے جا رہے ہیں اور نماز انسان کا رشتہ ﷲ سے جوڑتی ہے‘‘ میں نے کہا ’’اس میں کیا شبہ ہے، مگر آپ کے چھوٹے سے محلے میں پہلے سے چھ مسجدیں ہیں، ساتویں بنا کر کیا کریں گے؟‘‘ کہنے لگے ’’تم جاہل کے جاہل ہی رہے، میں مسجد اپنے محلے میں تو نہیں بنا رہا‘‘ میں نے پوچھا ’’تو پھر کہاں بنا رہے ہیں؟‘‘ بولے ’’یہ تو مجھے بھی علم نہیں، فی الحال تو اس کیلئے چندہ جمع کر رہا ہوں‘‘ اس پر مجھے ہنسی تو بہت آئی مگر میں نے صرف دل ہی دل میں قہقہہ لگانے پر اکتفا کیا تاہم میں نے پوچھا ’’علامہ صاحب ابھی تک کتنے اہل خیر نے اس نیکی کے کام میں آپ سے تعاون کیا؟‘‘ بولے ’’الحمدللہ میں جس کے پاس بھی گیا ہوں اس نے کہا حضرت آپ نے آنے کی زحمت کیوں کی، ہمیں حکم دیتے‘‘ میں نے کہا ’’واہ،یہ بات ہوئی نا!‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ علامہ نے فرمایا ’’سب لوگ یہی کہتے رہے کہ علامہ صاحب آپ اس کام کیلئے آئندہ ہمارے پاس نہیں آئیں گے، چنانچہ میں پھر ان کے پاس نہیں گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ آپ کے پاس آئے؟‘‘ بولے ’’ابھی تک تو نہیں آئے!‘‘ اس کے بعد علامہ صاحب نے مجھے مخاطب کیا اور کہا ’’میں جانتا ہوں تم نیکی کے کاموں میں کبھی پیچھے نہیں رہے اور مسجد تو ﷲ کا گھر ہے اس کیلئے تو تم اپنی حیثیت سے بڑھ کر چندہ دو گے!‘‘۔

یہ سن کر میں نے علامہ صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں اٹھایا اور کہا ’’کیوں مجھے گنہگار کرتے ہیں آپ نے اس کام کیلئے خود آنے کی زحمت کیوں کی؟‘‘ پھر میں انہیں پورے احترام سے دروازے تک لے گیا اور باہر چھوڑ کر اندر سے کنڈی لگالی!

راولپنڈی میں مقیم احمد رضا راجہ کی ایک مختصر نظم حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے،

یہ بھی وقت لانا تھاایک دن تیرے کام نے

تیرے سامنے

تیرا طوق رکھ کے اتار دیا ہے غلام نے

تیرے سامنے

تیرے ظلم نے جو لگائی تھی میرے شہر میں

اُسی آگ سے

تیرا تاج و تخت جلا دیا ہے عوام نے

تیرے سامنے