آزادی صحافت پر حملہ

September 18, 2021

روزِ آشنائی…تنویر زمان خان ،لندن
دنیا میں کسی ملک کے مہذب ہونے کو ماپنے کا ایک اہم ترین پیمانہ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ وہاں میڈیا اور پریس کتنا آزاد ہے۔ دنیا کے اہم سروے ادارے RSF کے مطابق اس سال 180 ممالک کے سروے میں پاکستان کا نمبر 145 ہے جب کہ کینیا اور ایتھوپیا کی صورتحال بھی پاکستان سے کہیں بہتر ہے، اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں ان چیزوں کی پروا نہیں کی جاتی، اس وقت پاکستان میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا مسئلہ ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ میڈیا اگر کنٹرول کرلیا جائے تو نہ صرف اپنی کم زور کارکردگی کو چھپایا جاسکتا ہے بلکہ جھوٹی لیکن بہترین کارکردگی بنا کر دکھائی بھی جاسکتی ہے، اس اتھارٹی میں مزید سرکاری افسران تعینات کئے جائیں گے جو خبر کی صداقت یا جھوٹ کا فیصلہ کیا کریں گےاور ان افسران کا میڈیا اور رپورٹرز پر کنٹرول بڑھ جائے گا حالانکہ دنیا بھر میں جہاں آزادی صحافت اور آزادیٔ اظہارِ رائے ہے وہاں آزاد ریگولیٹر ہوتے ہیں جن پر حکومت کا کوئی ایسا دبائو نہیں ہوتا جیسا کہ اس کا سرکاری ملازمین پر ہوتا ہے۔ڈرافٹ بل کے تحت اتھارٹی کے پاس یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی کے زیر انتظام ٹریبونلز کے ذریعے صحافیوں اور مالکان پر 25 کروڑ روپے تک کے جرمانے عائد کرسکیں گے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا پر ذمے داری عائد ہوگی کہ وہ مستقبل کا پاکستان دکھائے، یہ بڑی دلچسپ شق ہے، سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا دکھایا جانے والا پاکستان اور ہوگا اور اصلی اور حقیقی پاکستان اور طرح کا ہوگا، ہمارے ہاں تو یہ روایت ہے کہ جو حکومتِ وقت اور ہمارے طاقتور ادارے جو دکھانا چاہتے ہیں اور جس طرح دکھانا چاہتے ہیں بس اسی کو سچ کہتے ہیں، اگر کوئی خبر یا رپورٹ ان کے خیالات اور پالیسی کے برعکس ہے تو اسے جھوٹ( FAKE )بھی کہتے ہیں اور ملک دشمنی بھی، اس لیے اس بات کا تعین کرنا بہت مشکل کام ہوجائے گا کہ سچ دکھایا جائے یا حکومت اور اداروں کا من پسند دکھایا جائے۔ اس لیے ملک کے نہ صرف تمام صحافتی ادارے بلکہ وکلاء، سیاسی پارٹیاں، عدلیہ سب اس مجوزہ بل کو آزادی اظہار رائے پر بڑا حملہ قرار دے رہے ہیں اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں، کہیں دھرنوں کی صورت میں کہیں مظاہروں کی شکل میں، کیوں کہ ایسا ہمیشہ آمروں کے ادوار میں ہوتا رہا ہے، جنرل ایوب خان کے زمانے میں پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس آیا تھا جس کے خلاف شدید جوجہد سامنے آئی تھی اور بالآخر حکومت کو اسے واپس لے کر ردی کی ٹوکری میں پھینکنا پڑا۔ جنرل ضیا ء الحق کے زمانے میں اظہارِ رائے پر کئی طرح کی قدغنیں لاگو تھیں، جنر ل ضیا کی مخالفت اینٹی اسٹیٹ عمل گردانا جاتا تھا ۔ اخبارات پر ایسا سنسر عائد تھا کہ خبروں سے بھرا نصف اخبار سنسر کی نذر ہوجاتا تھا اور مارکیٹ میں خبروں بھرے اخبار کی بجائے کئی بار پورا پورا صفحہ سفید ہی شائع ہوجاتا تھا، اب پھر موجودہ حکومت طاقتور اداروں کی پشت پناہی سے ویسا ہی کچھ کرنے جارہی ہے کہ صرف ایک پارٹی کی خبروں کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاسکے۔ دراصل حکومت طویل عرصے تک مسلط رہنا چاہتی ہے۔ اب مختلف صحافتی اداروں جن میں آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی، سی پی این ای ، پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن،پی ایف یو جے، ایسویسی آف الیکٹرانک میڈیا جیسے اداروں نے اس بل کو نہ صرف آزادی اظہار پر حملہ بلکہ اسے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اس بل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کسی منتخب شدہ جمہوری حکومت اور نظام کے زیر اثر نہیں بلکہ آمریت میں گھرا ہوا ہے لیکن ایسا بھی محسوس ہورہا ہے کہ اگر حکومت اس بل پر بضد رہی تو ملک کے مختلف حلقے جو کہ پہلے ہی مہنگائی ، لاقانونیت، بڑھتے ریپ کیسز پر اپنے تئیں سراپا احتجاج ہیں یہ سب متحد ہوتے جارہے ہیں اور یہ تمام حلقے مل کر ایک حکومت کے خلاف بڑی تحریک میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس قسم کے آزادی دشمن اور عوام دشمن قوانین اور ادارے بنانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔