سید علی گیلانی پاکستان کے سچے عاشق

September 18, 2021

تحریر: کونسلر حنیف راجہ۔۔۔گلاسگو
مقبوضہ کشمیر کے سیاسی منظرنامے پر 50 سال سے زیادہ عرصہ نمایاں رہنے والی شخصیت سید علی گیلانی جو مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی ایک مضبوط ترین آواز تھے اور جن کا قبر میں جاتے ہوئے آخری لباس بھی پاکستان کا پرچم تھا۔ 92 سال کی عمر میں اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئے ، آپ نے اپنی زندگی کے 15 سال بھارتی جیلوں میں اور بقایا بڑا حصہ گھر میں نظر بند رہے، اور اسی نظربندی کے دوران پاکستان ہمارا ہے اور ہم پاکستانی ہیں کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بھارتی حکومت سید علی گیلانی سے اس حد تک خوفزدہ تھی کہ رشتہ داروں سے ان کی میت چھین کر بندوقوں کے سائے اور رات کی تاریکی میں ان کو سپردخاک کردیا اور عوامی ردعمل کے خوف سے وہاں کرفیو نافذ کردیا۔ ان کی موت یقیناً ایک شہید کا درجہ رکھتی ہے، سید علی گیلانی پاکستان کے سچے عاشق تھے پاکستان کے چند حکمرانوں خصوصاً جنرل مشرف نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے اصول جسے اقوام متحدہ نے بھی منظور کر رکھا ہے اس سے روگردانی کرتے ہوئے جب چند مختلف قسم کے فارمولے پیش کئے تو سید علی گیلانی نے سرعام اس کی مخالفت کی، جب ان کی جنرل مشرف سے ملاقات ہوئی تو فوراً ان کا ماتھا چوما اور جب پرویز مشرف نے ان کو کشمیر پر اپنے فارمولے سے آگاہ کیا تو انہوں نے واپسی پر پرویز مشرف سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہ کیا۔ سید علی گیلانی کو اس صدی کا اگر سب سے بڑا حریت پسند لیڈر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، انہوں نے تمام زندگی ہر قسم کے مصائب جھیلے لیکن کشمیر پر اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے، غلام نبی فائی جو سید علی گیلانی کے کزن تھے انہوں نے بتایا کہ جب ایکبار ان کو پتہ چلا کہ سید علی گیلانی حج کے لئے سعودیہ آرہے ہیں تو ہم نے بھی ان سے ملاقات کے لئے وہاں جانے کا پروگرام بنا لیا، وہاں نوابزادہ نصر اللہ خان نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کی پالیسی الحاق پاکستان ہے تو سید علی گیلانی خاموش ہوگئے اور پھر کچھ دیر کے بعد جواب دیا کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق میری سیاسی پالیسی نہیں بلکہ میرے ایمان کا حصہ ہے۔ سید علی گیلانی نے پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ میں تبدیل کرتے ہوئے کشمیر میں اس نعرے کو یوں متعارف کرایا کہ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ اور ان کا دوسرہ نعرہ آج مقبوضہ کشمیر میں بچے بچے کی زبان پر ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے، ان کی پاکستان سے محبت لازوال تھی، میجر ماجد حسین، طاہر انعام شیخ اور مجھے سید علی گیلانی کا انٹرویو کرنے اور ان سے ہم کلام ہونے کا شرف کئی سال تک مسلسل حاصل رہا، وہ ہمارے ساتھ انٹرویو کے لئے ہمیشہ وقت نکال لیتے تھے، ان کا ایک ایک لفظ ایمان افروز اور آزادی کے یقین سے بھرپور ہوتا تھا۔ ان کو یقین کامل تھا کہ کشمیریوں پر چھائی ظلم کی یہ رات یقیناً ایک دن ختم ہوگی ان کو انسانی حقوق کا چیمپین بننے والی بین الاقوامی قوتوں سے گلہ تھا کہ یہ اپنے مادی مفادات کی وجہ سے بھارت پر دبائو نہیں ڈالتی کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے، اسی وجہ سے وہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور وہاں نو لاکھ افواج کی موجودگی کی صحیح طور پر مذمت نہیں کرتیں۔ سید علی گیلانی علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے بہت بڑے مداح تھے آپ نے ملازمت کے دوران 1953ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اگرچہ بعدازاں بعض وجوہات کی بنا پر جماعت سے علیحدہ ہوگئے۔ آپ 1972ء میں پہلی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر 1977ء اور 1987ء میں بھی کامیابیاں حاصل کیں لیکن 1989ء میں کشمیر میں بھارتی افواج کے بیہمانہ مظالم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا، بعد ازاں آپ تقریباً 25 سیاسی جماعتوں پر مشتمل حریت کانفرنس کے سربراہ چنے گئے۔ 2020ء میں انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ نشان پاکستان سے نوازا گیا۔آئین جواں مردی، حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
سید علی گیلانی کی پوری زندگی تحریک آزادی کشمیر کی جدوجہد میں گزری جو کہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کو چاہئے کہ سید علی گیلانی کی یاد میں یادگاریں قائم کریں، مختلف عمارتوں اور پارکوں کے نام ان کے نام پر رکھے جائیں۔ ہمیں آزادی کے ہیروں کے ناموں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، زندگہ قومیں اپنے ہیروز کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں تاکہ نئی نسل کو ان کے کارناموں سے روشناس رہے اور ان کے دلوں میں بھی حریت اور آزادی کے جذبات پیدا ہوں۔ ہمیں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے ناموں پر مبنی تختیاں لگانے کی ضرورت نہیں، قومی خزانے سے ان لوگوں کی یادگاریں بنانا ایک اخلاقی جرم کی حیثیت رکھتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں وانی اور علی گیلانی جیسے بے شمار نام ہیں جو اس عزت و احترام کے مستحق ہیں۔ لاہور کینٹ میں افواج پاکستان نے اپنے کئی شہداء کے نام پر سڑکوں کے نام منسوب کئے ہیں ،یہ ایک قابل تقلید مثال ہے۔