اقدار کا قحط

September 18, 2021

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے کی گئی ہنگامہ آرائی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہم اخلاقی طورپر گراوٹ کا شکار ہیں۔ اپوزیشن اراکین کی جانب سے غیراخلاقی ریمارکس، گالم گلوچ اور پارلیمنٹ ہائوس کو میدانِ جنگ میں تبدیل کر نیوالے رویے سے مشترکہ سیشن کے دوران ایسا خلل پیدا کیا گیا جو پارلیمانی روایات کے بر خلاف ہے۔ اگر احتجاج کرنا ہی مقصود تھا تو اس حوالے سے بھی ایک حد متعین ہے جس سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ تاہم جو رویہ اپوزیشن کی جانب سے دیکھنے میں آیا اس کی نہ تو جمہوریت اجازت دیتی ہے اور نہ ہی پارلیمانی روایات میں اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ یہ ایک انتہائی نا مناسب اور غیرپارلیمانی رویہ تھا جس کا اختتام اپوزیشن کے واک آئوٹ پر ہوا۔ اس واقعے نے ہماری اخلاقی اور پارلیمانی روایات پر منفی اثرات نقش کئے۔

اپوزیشن کی جانب سے کیا گیا شور شرابہ نہ تو پہلی بار ہوا ہے اورنہ ہی شاید یہ آخری بار ہوجس کی وجہ کچھ یوں ہے کہ اس جارحانہ طرز سیاست کا کوئی علاج نہیں۔ احتساب سے فرار کی تلاش ناکام ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنانے اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہنگامہ آرائی اور پرتشدد ہتھکنڈوں کا سہارا لینے کا واحد مقصد وزیراعظم پر دبائو بڑھا کر احتساب سے بچنا ہے۔ انہی منفی ہتھکنڈوں کی وجہ سے آج اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے اور باہمی اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ٹوٹنے کے بعد مختلف جماعتیں ایک دوسرے پر شدید قسم کی الزام تراشی کرتی نظر آرہی ہیں۔

پاکستان کا حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے اور آئین سے بالاتر زندگی گزارنے کا عادی ہو چکا ہے۔ گزشتہ ادوارمیں انہیں مکمل حکومتی سرپرستی بھی حاصل رہی جس کے تحت احتساب کے چنگل سے بچنے کیلئے گھٹیاجوڑ توڑ کا سہارا لیتے ہوئے اداروں کو تباہ کیا اور آئین اور قانون کی عملدراری کی بجائے حکمرانوں کی خواہشات کو مدِنظر رکھنے کا رواج عام کیا۔ نتیجتاً پورا نظام اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بن گیا اور لوٹ مار کرنے والا گروہ حاوی ہو گیاجنہوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئےاور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے نت نئے طریقے ایجاد کئے۔ان لوگوں کے طویل اقتدار کے دوران اگر ان کے طرزِ عمل پرنظر ڈالی جائے تواحساس ہوگا کہ وہ کس قدر گراوٹ کا شکار رہے ہیں۔انہوں نے نہ اسکول یا ہنرمند اداروں کے قیام پر توجہ دی اور نہ ہی عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی، سستی بجلی یا ان کے لئے رہائشی منصوبے بنانے میں دلچسپی لی۔ انہوں نے اپنے ادوار میں کبھی اداروں کی تعمیر اور انہیں بااختیار بنانے پر توجہ نہیں دی۔ محض اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لئے حکمرانوں نے پورے نظام کو مفلوج کیا۔ اداروں کو ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا کبھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں رہا کیونکہ ایسا کرنے سے ان کے ارادوں کو ٹھیس پہنچنے کا خدشہ پیدا ہو جانا تھا۔ان کے منصوبوں کو جانچنے کا پیمانہ معیار نہیں بلکہ ان سے حاصل کردہ رشوت کے پیسے ہوتے تھے۔

اب جبکہ موجودہ حکومت کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود یقینی بنانے کے لئے اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا رہا ہے، ان سیاسی لٹیروں کو اپنا مستقبل تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے اس لئے حکومت کو ناکام بنانے کے لئے وہ ناپاک چالوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ یہ لوگ مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے عدالتوں میں تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں۔ ان سے بدعنوانی کے حوالے سے سوالات کئے جائیں تو جواب دینے کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ پارلیمانی کارروائی میں خلل ڈالنے اور ریاستی عہدیداروں پر الزام تراشی کے ساتھ ساتھ غیرپارلیمانی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ عوامی مقامات اور ٹی وی چینلز پر اپنی کامیابیوں کو غلط انداز میں بیان کرکے مسلسل جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔نہ تو کبھی انہوں نے خود کوئی اچھاکام کیا بلکہ دوسروں کی راہ میں بھی روڑے اٹکانے کی ٹھان رکھی ہے۔

اس مرحلے پر سمجھوتہ کرنا بطور آپشن، موجود نہیں۔ طویل عرصے بعد حکومت نظام کو فعال بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ بیورو کریسی کوکنٹرول کرنا ابھی ایک چیلنج ہے۔ تاہم دھمکی یا اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مقاصد میں کامیابی ہمیشہ حوصلے اور ثابت قدمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ حکومتی کوششوں کی راہ میں روڑے اٹکانے والے سیاسی بونوں کو ہرگز فرار کاراستہ نہیں ملنا چاہئے۔ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو رویہ اختیار کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امید کھو بیٹھے ہیں اس لئے وہ پرامن ماحول کو خراب کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیںدیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کی پروا کئے بغیر اپنے منصوبوں کو بلاروک ٹوک جاری رکھے۔ جب تک ملک کے پسماندہ اور غریب لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں ہو تا حکومتی کوششیں نیک نیتی کے ساتھ جاری رہنی چاہئیں۔ ریاست ان کی قربانیوں کے مرہونِ منت ہے۔ اگر غریب عوام خوشحال ہوں گے تو ملک بھی خوشحال ہوگا ورنہ ریاست بھی اپنے پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ مفادات کی اس جنگ میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اپنی ذات کو مضبوط کرنے میں لگے رہے جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو عوامی فلاح و بہبود کیلئے پرعزم ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اپنے لئے بیش قیمت محل تعمیر کرتے رہے اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کرپشن کی لعنت کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جوماضی کے اندھیروں کو دوبارہ پھیلانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو روشن راہوں کے مسافر ہیں۔ان لوگوں میں فرق کبھی اتنا واضح نہیں تھا اور مستقبل کبھی اتنا زیادہ روشن نہیں تھا جتنا آج ہے۔ مقصد یہ ہونا چاہئے کہ سب لوگ اس کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور ملک کو آگے بڑھانے میں مدد دیں۔