آسمانِ تصوف کا روشن ستارہ داتا گنج بخشؒ

September 26, 2021

ڈاکٹر اقبال احمد اخترالقادری

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کسی تعارف و شہرت کی محتاج نہیں…آپ نیک اور شرافت کے پیکرسادات خاندان کے چشم وچراغ تھے…

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ”ایک دفعہ میں اپنے پیر ومرشدحضرت شیخ ابو الفضل ختلی ؒکے ساتھ بیت الجن سے دمشق کاسفر کررہا تھا ،کہ راستے میں بارش ہو گئی،جس کی وجہ سے بہت زیادہ کیچڑ ہوگیا، ہم بہت ہی مشکل سے چل رہے تھے کہ اچانک میری نظر پیرومرشد پر پڑی،تو کیا دیکھتا ہوں کہ اُن کا زیبِ تن کیا ہوا لباس بھی بالکل خشک ہے اور پاؤں پر بھی کیچڑ کا کوئی نشان نہیں۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی، دریافت کیا تو ارشاد فرمایا” ہاں جب سے میں نے پروردگارِ عالم پر توکل کرتے ہوئے ہر قسم کے وہم وشبہ کو خود سے دور کردیا ہے اور دل کو حرص ولالچ کی دیوانگی سے محفوظ کرلیا ہے، تو اللہ رب العزت کی ذاتِ مقدس نے میرے پاؤں کو کیچڑ سے محفوظ رکھا ہے۔“

اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ اپنے پیرومرشد کاتذکرہ یوں فرماتے ہیں کہ”جب میرے پیرومرشد حضرت شیخ ابو الفضل ختلیؒ کا وصال ہوا تو اُن کا سر مبارک میری گود میں تھااور میں سخت مضطرب اور خاصا پریشان تھا۔آپ نے میری حالت کو دیکھا توفرمانے لگے کہ میں تمہیں عقیدے کا ایک مسئلہ بتاتا ہوں ۔اگر تم سمجھ گئے اور اُس پر عمل کیا تو ہر قسم کے دکھ اور رنج اور تکلیف سے بچ جاؤ گے۔ فرمایا ،یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت اور مصلحت مضمر ہوتی ہے۔ وہ حالات کو اُن کے نیک وبد کا لحاظ کرکے پیدا فرماتا ہے۔ اس لیے اُس کے کسی فعل پر انگشت نمائی نہ کرنااور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہونا۔ اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور اپنی جان، اس کائنات کو سجانے اور بنانے والے حقیقی خالق ومالک کے سپرد کردی“۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒایک سبق آموز واقعہ بیان فرماتے ہیں ”ایک مرتبہ میں عراق میں تھا ۔مجھے دنیا کمانے اور خرچ کرنے میں بڑی دلیری اور جرأ ت حاصل ہوگئی ،حتیٰ کہ جس کسی کو کوئی بھی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس چلا آتااور میں اس کی ضرورت پوری کردیتا،کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ کوئی بھی شخص میرے ہاں سے خالی ہاتھ واپس نہ جائے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میری اپنی کمائی اس غرض سے کم پڑنے لگی اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے مجھے قرض لینا پڑا،یوں میں چند ہی دنوں میں خاصا مقروض ہوگیا اور سخت پریشانی کا شکار ہوگیا۔

اُس دور کے ایک بزرگ نے میرے احوال کو دیکھتے ہوئے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو!یہ تو ہوائے نفس ہے ۔اِس قسم کے کاموں میں پڑ کر کہیں خدا سے دور نہ ہو جانا۔جو ضرورت مند ہے، اس کی احتیاج تو ضرور پوری کرو،مگر پروردگارِ عالم کی ساری مخلوق کے کفیل بننے کی کوشس نہ کرو،کیوں کہ انسانوں کی کفالت کا فریضہ خودربِ قدوس نے انجام دینا ہے۔مجھے اُس بزرگ کی نصیحت سے اطمینانِ قلب حاصل ہوا اور حسب طاقت لوگوں کی مدد کرتا رہا“۔

آپ نے اپنے پیرومرشد کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے وطن غزنی کو خیر باد کہا اور دینِ اسلام کی تبلیغ کا بے مثل شوق لیے کئی مہینوں کے دشوار گزار کٹھن سفر کے بعد لاہور پہنچے اور پھر لاہور میں مستقل سکونت اختیار فرمالی۔یہاںمسلمانوں کو استحکام حاصل کیے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا،ہر طرف ہندومذہب کے پیرو کار اور پیشواؤں کا دور دورہ تھا۔مگر آپ کی شریعتِ مطہرہ کی پابندی،بےداغ اور دلکش سیرت اور شفقت ومحبت سے بھرپور شخصیت لوگوں کو کفرو شرک کی دلدل سے نکال کر ”صراطِ مستقیم“ کی طرف گامزن کرنے کا باعث بنی۔ آپ نے خلوصِ دل سے دین کی ترویج واشاعت کا بیڑا اُٹھایااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آپ کے ارشاداتِ عالیہ اور مواعظِ حسنہ کی اثر انگیزی سے لوگوں نے اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہوئے جوق درجوق دائرۂ اسلام میںداخل ہونے اورآپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اپنے دور کے مردِ قلندرحضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اسی تناظر میں فرمایا تھا کہ ؎

نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی

بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

یہی وجہ ہے کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے حسنِ اخلاق اور مزاجِ کریمانہ اورنگاہِ فیض کے باعث جو لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہوئے،وہ نہ صرف خود ،تادمِ واپسیں،دامنِ مصطفیٰ ﷺتھامےرہے،بلکہ اُن کی نسلیں بھی تقریباََ ساڑھے نوسو سال گزرنے کے باوجود اسلام پر قائم ودائم ہیں۔ایسا کیوں نہ ہوتاکہ آپ ایک ایسے مردِکامل،صوفی باصفاء،درویش اور بزرگ تھے،جن کے پاس نہ تو کوئی خزانہ تھا ،نہ سپاہ،نہ دنیاوی وسائل اور نہ ہی جاہ وحشمت!کہ جس سے لوگ مرعوب ہو کرآپ کے پاس آتے،بس آپ اپنے” مصلے “پربیٹھے ہمہ وقت اپنے حقیقی خالق ومالک کی یاد میں مصروف رہتے، ریاکاری سے پاک ،اخلاص کے ساتھ کی جا نے والی عبادت وریاضت کی وجہ سے ربِ قدوس نے وہ شان عطا فرمائی کہ لوگ آپ کے پاس کھچے کھچے آتے اور آپ کے نورانیت سے بھرپور چہرۂ انور کو دیکھ کر ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکرجاتے۔

آپ کی نگاہِ فیض کا اظہارخواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری ؒنے بھی فرمایا کہ جب ایک بار خواجہ غریب نوازؒ لاہور تشریف لائے اور حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی اور ایک حجرے میں چالیس دن کا چلہ کاٹ کر عبادت وریاضت میں مصروف رہے،تواِس دوران جو فیوض وبرکات کی بارش دیکھی،اس کا اندازہ خواجہ غریب نوازؒ ہی لگا سکتے ہیں۔جب خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒچلہ سے فارغ ہو کر رخصت ہونے لگے تو بے ساختہ آپ کی زبان مبارک پر بطورِ خاص یہ شعر جاری ہواکہ؎

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نور خدا

نا قصاں را پیرِ کامل ، کاملاں رارہنما

اس مردِ خدا کی زبان سے نکلا ہوا یہ شعر اِس قدر زباں زدخاص وعام ہوا کہ جس کی گونج چہار سو پھیل گئی۔

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒنماز کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ”نماز ایسی عبادت ہے ،جو شروع سے آخر تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کے چاہنے والوں کی رہنمائی کرتی ہے۔وہ ہمیشہ اسی میں مشغول رہتے ہیں،اُن کے مقامات اسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے چاہنے والوں کی طہارت توبہ ہے۔قبلے کی طرف منہ کرنا‘ان کا پیرِ طریقت سے تعلق ہے۔قیام‘ ان کا مجاہدہ ہے۔قرأت‘ان کا دائمی ذکر ہے۔رکوع‘ان کی عاجزی ہے۔سجود‘ ان کے نفس کی پہچان ہے۔تشہد‘ان کی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دوستی ہے۔سلام‘ان کی دنیا سے علیحدگی اور مقامات کی قید سے باہر نکلنے کا نام ہے۔

خدمت دین کا فریضہ انجام دیتے ہوئے آپ نے لاہورہی میں وصال فرمایا،آپ کا مز ار پُر انوار لا ہور میں ہی ہے، اسی کی نسبت سے لاہور کو ’’ داتا کی نگر ی‘‘ کہتے ہیں …لاہور کی سرزمین اور ساکنان لاہور اس پر جتنا بھی فخر کریں ،وہ کم ہے کہ ایک ایسی بر گز ید ہ اور بلند پایہ ہستی یہاں آرام فرماہے جس کی آمد نے ہند کے اس خطےمیں شمع ایمان فروزاں کی… یہاں کی خاک اکا بر صوفیہ کے لیے سرمۂ بصیر ت اور تاج عز ت رہی…یہاں عوام بھی حاضر ہوتے ہیں ، صوفی اور عالم بھی ۔ ہرایک یکسا ں عقیدت کے ساتھ آتا ہے ۔ یہاں کی فضائیں ہر وقت اور ہر لمحہ ذکر خدااور ذکر رسولﷺ کی مہک سے شرا بور رہتی ہیں۔ بقول شاعر مشر ق علامہ اقبال ؎

خاکِ پنجاب از دم او زندہ گشت

صبح ما از مہر او تابندہ گشت

اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے مزارات کو اپنے انوار و تجلیات سے معمور فر مائے …اللہ تعالیٰ ہمیںان کے نقش قدم پر چلائے اور ان کے فیض سے سرفراز فرماتا رہے ۔(آمین)