غربت اور سلامتی

September 27, 2021

یہ طے شدہ امر ہے کہ سفارتی امور میں دوستی دشمنی کوئی معنی نہیں رکھتی ، آپ کی دوستی ہو یا معاملہ دشمنی کی جانب چل پڑے بنیادی وجہ مفادات اور ان کے حصول کے امکانات سےجڑا ہوتا ہے اور وطن عزیز بھی اسی کلیہ کی بنیاد پر اپنے مفادات کی نگہبانی و نگہداشت کر سکتا ہے۔ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں کے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے جس کیلئے وسائل اور تجربہ مہیا کرنے والا ملک آپ کی نظر میں دوست ہوتا ہے اور چین اس وقت یہ کردار نبھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ہمارے موجودہ کرتا دھرتاؤں کی جانب سے اس حوالے سے ایک مستقل سردمہری کا رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سی پیک وطنِ عزیز میں کاروباری معاملات میں بہتری لانے کی جانب ایک غیر معمولی قدم تھا مگر اب تو صورتحال یہاں تک آ پہنچی ہے کہ صاحبانِ اقتدار اپنے پسندیدہ اینکر صاحبان سے بجلی کے کارخانے لگانے تک پر بے جا تنقید کروا رہے ہیں کہ گزشتہ حکومت نے بجلی کے کارخانے کیوں لگائے تھے اور ملک کو اندھیروں میں ہی کیوں نہیں بھٹکنے دیا گیا تھا؟ کاروبار اور انرجی کی فراوانی کسی ملک میں غربت کو خیرباد کہنے کا بنیادی طریقہ ہے اور یہی طریقہ کار چین نے اپنی آبادی کو غربت سے نکالنے کے لئے اختیار کیا ہے۔ صدر شی جب 2012 میں اقتدار میں آئے تو چین میں جس رفتار سے غربت کا خاتمہ کیا جا رہا تھا اس تناسب سے اقوام متحدہ نے 2030 کو چین میں غربت کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا مگر صدر شی کی قیادت میں یہ ہدف 2021 میں حاصل کر لیا گیا اور انہوں نے اپنے عرصہ صدارت میں سات سو ستر ملین افراد کو خط غربت سے نکالا جو دنیا میں غربت کے خاتمے میں 70 فیصد حصہ ہے جبکہ باقی دنیا نے مجموعی طور پر30فیصد غربت کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے اور اسی کامیابی کا مطالعہ کرنے اور پاکستان چین کے اس تجربے سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے عوام کو کیسے غربت کے عفریت سے نجات دلاسکتا ہے، کو سمجھنے کے لئے میں نے ایک سیمینار کا انعقاد کروایا جس میں لاہور میں تعینات چینی قونصل جنرل مسٹر پینگ، مسٹر ڈو، سلمان غنی، جاوید فاروقی، خالد قیوم، رانا ارشد، دلاور چوہدری، امجد محمود، ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹر قيس عالم، ڈاکٹر صلاح الدین ایوبی، ڈاکٹر امجد مگسی ، بیرسٹر اسلم شیخ، صابر صادق، عدنان خان، ضیاالحق نقشبندی، یاسر حبیب خان، اور سابق ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نذیر حسین نے شرکت کی اور چین کی اس کامیابی سے پاکستان کیسے مستفید ہو سکتا ہے‘ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ چین بڑی طاقت ہونے کے باوجود دوسرے ممالک میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہے اس لئے اس سے کوئی معاہدہ کرتے ہوئے خوف نہیں آتا اور سی پیک اسی نوعیت کا ایک معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کو صرف دو ریاستوں کے مختلف امور کو آپس میں جوڑنے تک محدود نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ یہ تو ایک چھتری ہے کہ جس کے نیچے دونوں ممالک کے کاروباری افراد بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کر سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت ایسے حالات قائم کر دیئے گئے ہیں کہ جس کے سبب سے چینی بزنس مین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے کترا رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ چین سے تین ہزار افراد کاروباری ویزے پر پاکستان آئے مگر ان میں سے کوئی ایک بھی سرمایہ کاری کرنے کی غرض سے پلٹ کر نہیں آیا اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہاں پر ابھی تک تو ملکیت اور ليز کے معاملات کو ہی طے نہیں کیا گیا ۔ داسو ڈیم سانحہ کے مجرمان کو كيفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا کہ جس سے چینی سیکورٹی میں بہتری محسوس کرتے بلکہ اسد عمر کہہ رہے ہیں کہ یہ تو سی پیک میں شامل پروگرام نہیں تھا جو خاص سیکورٹی دی جاتی۔ سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ معاملات کس قسم کے ہاتھوں میں آ گئے ہیں ۔ سی پیک میں دلچسپی کم ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پہلے اس کے امور کو ایوان وزیراعظم براہ راست دیکھتا تھا مگر اب سی پیک اتھارٹی ہے کہ جس کا سی پیک کے معاہدے میں سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ، خیال رہے کہ ان تمام امور کے سبب سے ہی صدر شی کا دورہ باربار مؤخر ہو رہا ہے کیونکہ وہ ایم ایل ون کی تقریب میں شرکت کی غرض سے آتے مگر اس تقریب کا تو ابھی دور دور تک سان و گمان بھی نہیں ہے یہاں تو صدر بائیڈن سے ٹیلی فون پر گفتگو نہ ہونے کے متعلق بات چیت جاری ہے حالاں کہ اگر ہم غور کریں تو صدر شی سے بھی وزیراعظم عمران خان کی آخری بار گفتگو فروری 2020ءمیں ہوئی تھی اس کے بعد کوئی ٹیلی فونک رابطہ بھی نہ ہو سکا۔ سی پیک معاہدے سے قبل پاکستان چین دوستی کا حلقہ اثر صرف سیکورٹی کے امور سے متعلق تھا کہ جس میں معاشی مفادات کا تعلق نہیں تھا۔ اگر خدا نخواستہ سی پیک سے وہ فوائد حاصل نہ کیے گئے جو کئے جا سکتے ہیں تو ایسی صورت میں دوبارہ معاملات سیکورٹی امور تک ہی محدود ہو جائیں گے اور مل کر غربت کے خاتمے کا خواب صرف خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔ مجھے سیکورٹی امور میں بھی تعاون کی افادیت سے انکار نہیں بلکہ اگر ہم خطے کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ نت نئے چیلنج سامنے آ رہے ہیں جن میں پاکستان کو غیر معمولی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مثال کے طور پر جس طرح امریکہ میں حال ہی میں کواڈ ممالک کی کانفرنس ہوئی ہے جس میں نریندر مودی اور صدر بائیڈن ساتھ ساتھ نظر آ رہے ہیں، یہ ایک نیا منظر نامہ تشکیل دینے کی طرف ایک قدم ہے۔ اگر وطن عزیز کوشش کرے تو امریکا سے بہت سارے امور پر گفتگو میں مثبت نتیجہ حاصل کیا کرسکتا ہے کیونکہ امریکہ بہرحال خطے اور دنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہے لیکن بھارت کی طرف سے اٹھائے گئے ہر قدم کا مطالعہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ بھارت کے اقدامات کو وطن عزیز کے تناظر میں دیکھا جائے، کواڈ اتحاد بھی اسی نوعیت کا ایک قدم ہے کہ جس سے صرف چین کو نہیں بلکہ وطن عزیز کو بھی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے چین تو اس حوالے سے تیار ہے، اسی لئے میرے عزیز ترین دوست اور چینی وزارت خارجہ کے ترجمان Mr. Zhao نے کواڈ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ناکامی انکا مقدر ہے‘‘ تیاری ہمیں بھی کرنی چاہئے لیکن شرط صلاحیت ہے۔