سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے !

September 27, 2021

پاکستان کا نظام احتساب کبھی عوام کے وسیع تر حلقوں کا اعتبار اور اعتماد حاصل نہیں کر سکا ۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے قومی احتساب بیورو ( نیب ) کے اگلے چیئرمین کی تقرری کے لیے آئینی راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کیا تو نیب کے ادارے کے بعد چیئرمین نیب کا عہدہ بھی متنازع ہو گا اور اس کے انتہائی غیر متوقع اور تشویش ناک سیاسی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔

موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کے عہدے کی معیاد ختم ہونے والی ہے ۔ آئین کے مطابق اگلی مدت کے لیے چیئرمین نیب کی تقرری وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے ہونی چاہئے لیکن وفاقی وزراء کے بیانات سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت آئینی راستے کی بجائے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے ۔ یہ بھی اشارے مل رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت موجودہ چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اگلی مدت کے لیے بھی برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ اس کے لیے دو آپشنز کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ایک آپشن یہ ہے کہ ان کے عہدے کی معیاد میں توسیع کر دی جائے اور دوسرا آپشن یہ ہے کہ ان کی دوبارہ تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے ۔ قانون ایسے دونوں آپشنز کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت قومی احتساب آرڈی ننس 1999 ء میں ترمیم کرنا چاہتی ہے ۔ ترمیم یا تو آرڈی ننس کے ذریعہ ہو گی یا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ترمیمی بل منظور کرایا جائے گا ۔ لیکن یہ راستہ بھی سپریم کورٹ کے اس حکم کی خلاف ورزی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے قانون نہیں بنایا جا سکتا ۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کہتے ہیں کہ وزیر اعظم چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے مشاورت نہیں کریں گے کیونکہ ان کے بقول شہباز شریف کے خلاف نیب کے مقدمات ہیں ۔ ان کے ساتھ مشاورت سے مفادات کا ٹکراو ہو گا ۔ حالانکہ قانون وزیر اعظم کو ایسے اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت سے نہیں روکتا ، جس کے خلاف مقدمات ہوں ۔ جب تک مقدمات میں لگائے گئے الزامات درست ثابت نہ ہوں ، تب تک وہ بے گناہ ہیں ۔ اگر الزامات ثابت ہو جائیں تو وہ اپوزیشن لیڈر بھی نہیں رہیں گے اور قانون کے مطابق ازخود نااہل ہو جائیں گے ۔لہٰذا وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ چیئرمین نیب کی تقرری کے لیے آئینی راستہ اختیار کریں تاکہ نظام احتساب پر اعتماد کی بحالی کا راستہ ہموار ہو اور خود چیئرمین نیب کا عہدہ بھی متنازع نہ ہو ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی نظام احتساب کو سیاست اور سیاست دانوں کو کمزور کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے سندھ کے سیاست دانوں کو کرپٹ اور نااہل قرار دیا گیا ۔ ’’ احتساب ‘‘ کو بنیاد بنا کر صوبائی حکومت کو یکے بعد دیگرے برطرف کیا گیا ۔ خان بہادر ، محمد ایوب کھوڑو ، پیر الہی بخش ، قاضی فضل اللہ اور پیر زادہ عبدالستار کی حکومتیں مبینہ کرپشن اور نااہلی کی بنیاد پر برطرف کی گئیں ۔ پیر علی محمد راشدی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سندھ کا کوئی چلتا پھرتا سیاست دان ( میرے علاوہ ) ایسا نہیں رہا ، جو ’’ پروڈا ‘‘ کے تحت نااہل اور کرپٹ قرار نہ دیا گیا ہو ۔ ‘‘ سندھیوں کے بعد بنگالیوں کی باری آئی ۔ قرار داد پاکستان ( لاہور ) کے محرک مولوی فضل الحق مرحوم نے اپنے آخری ایام اپنی آبرو بچانے کی فکر میں گزارے ۔ مشرقی بنگال میں لڑ جھگڑ کر پاکستان میں شامل کروانے والے حسین شہید سہروردی کو بڑھاپے میں جیل کاٹنا پڑی اور جیل سے رہا ہوئے تو بیرون ملک جاکر مرنا قبول کیا ۔ حسین شہید سہروردی کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے صدر اور آرمی چیف کے کہنے پر کسی کو چاولوں کی درآمد کا پرمٹ دیا تھا ۔ پرمٹ دینے کی دستاویزات پر سکندر مرزا اور ایوب خان کی ہدایات کا نوٹ بھی موجود تھا ۔ ان دونوں کا کبھی احتساب نہ ہو ا۔ سکندر مرزا اور ایوب خان کے سارے رشتہ دار صنعت کار بن گئے اور سہروردی مرحوم اپنے وہ اثاثے بھی دوبارہ نہ بنا سکے ، جو انہوں نے تحریک پاکستان میں لٹا دیئے تھے ۔ خواجہ ناظم الدین کے پاس آخری عمر میں کوئی گھر نہ تھا اور نہ ہی کوئی ذریعہ معاش ۔ انہیں بھی کرپٹ قرار دے کر بے آبرو کیا گیا ۔ بنگالیوں کے بعد بلوچوں ، پختونوں اور پنجابی سیاست دانوں سب کی باری آئی ۔ یہاں تک کہ اردو بولنے والے چوہدری خلیق الزمان مرحوم جیسے سیاست دان بھی احتساب کے نام پر بے آبروئی سے نہ بچ سکے ۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے نظام احتساب میں جینیاتی خرابی ہے ۔ اس خرابی کے ساتھ احتساب کے نظام اور احتساب کے اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور یہ سلسلہ قیام پاکستان سے آج تک جاری ہے ۔ غلام محمد، اسکندر مرزا ، ایوب خان ، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کا احتساب کرنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی حالانکہ ان لوگوں کے ادوار حکومت میں کرپشن کو ’’ اداراتی ‘‘ شکل دی گئی ۔ صرف سیاست دانوں کا احتساب ہوا اور احتساب کے شکنجے سے صرف وہ سیاست دان بچ گئے اور اب بھی بچے ہوئے ہیں ، جو غیر سیاسی قوتوں کی سیاسی اسکیم کا حصہ بنے ۔ اس سے سیاست دانوں میں کرپشن سرایت کر گئی اور یہ سسٹم کے لئے موزوں صورت حال ہے کیونکہ احتساب کے نام پر سیاست دانوں کو اپنے اشاروں پر نچانے کا ایک مضبوط نظام بن گیا ہے اور سیاسی تحریکیں کمزور ہو گئی ہیں ۔ صرف ’’ڈیل ‘‘ کی سیاست رہ گئی ہے ۔ وہ ڈیل کسی سے بھی ہو سکتی ہے ۔ موجودہ نظام احتساب اور خصوصاً نیب کے بارے میں پاکستان کی عدلیہ کے ریمارکس حقیقت بیان کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کیلئے یہ موقع ہے کہ وہ چیئرمین نیب کے تقرر کیلئے آئین میں بتایا گیا راستہ اختیار کریں تاکہ احتساب کے نظام پر لوگوں کا اعتبار اور اعتماد بحال کرنے کا عمل شروع ہو سکے ۔ اس کے علاوہ ہر راستہ احتساب کے نام پر سیاست کو کمزور کرنے کی طرف جائے گا ۔ اس نظام احتساب کے بارے میں منیر نیازی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔

کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے

سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے