امپورٹ میں اضافہ روکنے کے حکومتی اقدامات

September 27, 2021

میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ملکی امپورٹ اور تجارتی خسارے میں مسلسل اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس سال جولائی اور اگست کے مہینے میں امپورٹ 72فیصد اضافے سے 12ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ اس دوران ایکسپورٹ 4.6ارب ڈالررہی جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ 7.5ارب ڈالر اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ 2.3ارب ڈالر تک پہنچ گیا ۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور بڑھتے ہوئے تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کے باعث ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر جو اگست میں آئی ایم ایف کے 2.5ارب ڈالر SDR فنڈ ملنے کے باعث 27.2ارب ڈالر تک پہنچ گئے تھے، 17ستمبر کو 480ملین ڈالرسے کم ہوکر 26.4ارب ڈالر تک آگئے جس میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 19.6ارب ڈالر اور نجی بینکوں کے 6.8 ارب ڈالر شامل ہیں۔ اس دوران بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے 29ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات زر موصول ہوئیں جس نے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا۔ زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے سے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 170روپے کی سطح پر پہنچ گئی ہے جو ملک میں موجودہ مہنگائی کا سبب ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ 3مہینوں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی بڑھتی ہوئی طلب کے پیش نظر 1.2ارب ڈالر مارکیٹ میں داخل کئے لیکن اس کے باوجود روپے کی قدر کو کنٹرول نہیں کیا جاسکا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملکی کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2سے 3فیصد یعنی 6سے 9ارب ڈالر تک پہنچنے کا عندیہ دیا ہے لیکن معیشت دانوں کے مطابق جون 2022ء تک کرنٹ اکائونٹ خسارہ 10سے 12ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی امپورٹ، تجارتی و کرنٹ اکائونٹ خسارے نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اور وزیر خزانہ شوکت ترین نے اضافی امپورٹ کو روکنے کیلئے بے شمار لگژری اشیاجن میں امپورٹڈ گاڑیاں، کاسمیٹکس، ٹیکسٹائل مصنوعات، اسٹیشنری، چائے اور کھانے پینے کی اشیا شامل ہیں، پر ریگولیٹری ڈیوٹی کئی گنا بڑھانے کا اشارہ دیا ہے۔پاکستان خطے میں زرعی اجناس چینی، گندم، پام آئل، دالیں، پھل اور سبزیاں ایکسپورٹ کرتا تھا لیکن آج ان اشیا کو امپورٹ کررہا ہے اور ہماری کھانے پینے کی اشیا کی امپورٹ 50فیصد اضافے سے 1.5ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جو گزشتہ سال ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھیں۔ جولائی اور اگست میں خوردنی تیل کی امپورٹ 64فیصد اضافےکے ساتھ بڑھ کر 577ملین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ امپورٹ میں اضافے کی دیگر وجوہات میں دو مہینوں میں ٹیکسٹائل مشینری کی2ارب ڈالر اور کورونا ویکسین کی امپورٹ بھی شامل ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں حکومت کی توجہ لگژری گاڑیوں کی امپورٹ میں اضافے پر دلائی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے امپورٹ کی گئی گاڑیوں پر نجی بینکوں کی رعایتی فنانسنگ ختم کردی ہے اور اب کوئی بھی شخص گاڑی کیلئے 30لاکھ سے زیادہ قرضہ نہیں لے سکتا لیکن 1000سی سی سے کم گاڑیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اسی طرح 1500سے 1800سی سی کی الیکٹرک گاڑیوں پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی 15فیصد سے بڑھاکر 50فیصد کرنے کی تجویز ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق نجی بینکوں نے صرف اگست کے مہینے میں کار فنانسنگ کیلئے 360ارب روپے کے قرضے دیئے ہیں جبکہ میرے نزدیک ملکی صنعتی شعبے کو گاڑیوں کے مقابلے میں ان قرضوں کی زیادہ ضرورت تھی۔ ایف بی آر نان فائلر ٹیکس دہندگان کو فائلرز بنانے کیلئے سخت اقدامات کرنے جارہا ہے جس کے تحت ٹیکس چوری میں ملوث افراد کیلئے 5لاکھ روپے جرمانہ اور ایک سال تک سزا اور نان فائلرز کی بجلی اور ٹیلیفون کی سہولتیں بند کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ میں نے ہمیشہ معیشت کو دستاویزی بنانے پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں اس وقت جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح خطے میں سب سے کم 10سے 11فیصد ہے۔ 22 کروڑ کی آبادی میں صرف 62لاکھ افراد جن کی سالانہ آمدنی 4لاکھ روپے سے زائد ہے، ایف بی آر کے ٹیکس نظام میں رجسٹرڈ ہیں جن میں سے صرف 29لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس کے باوجود گزشتہ سال ایف بی آر نے ہدف سے زائد 4700ارب روپے کی ٹیکس وصولی کی جبکہ اس سال ٹیکس وصولی کا ہدف 5829ارب روپے رکھا گیا ہے۔حکومت نے گزشتہ 3برس میں 6910ارب روپے کے قرضے لئے جبکہ صرف رواں مالی سال حکومتی قرضے 4547ارب روپے تک ہونے کی توقع ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضے گزشتہ 3برس میں 93ارب ڈالر سے بڑھ کر 117ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جن میں سے حکومت کو رواں مالی سال 14ارب ڈالر واپس کرنے ہیں جس میں 11.5ارب ڈالر پیرس کلب کے قرضے شامل ہیں لیکن کورونا وبا کے باعث ان قرضوں کی ادائیگی موخر کردی گئی ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح بڑھ کر 90فیصد تک پہنچ گئی ہے اور بجٹ کا ایک تہائی حصہ سود کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے جس کیلئے ضروری ہےکہ وسائل، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، اخراجات میں کمی، نئے قرضوں کے حصول سے اجتناب، لگژری آئٹمز کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی اور زرعی شعبے کو فروغ دے کر زرعی اجناس میں خود کفالت حاصل کی جائے تاکہ بڑھتے ہوئے امپورٹ بل کو کنٹرول کیا جاسکے۔