عالمی جمہوریت کا حال اور پاکستان

September 28, 2021

سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران تو دنیا کی سب ہی ترقی پذیر جمہوریتوں کی طرح ہماری سیاسی تاریخ اور جاری بیمار حکومتی نظام کا تشخص ہے۔ ہم تو ہم، اب تو دنیا بھر کے لئے جمہوریت کا سب سے بڑا مرکز و محور امریکہ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی جمہوریہ، ہمسایہ بھارت اپنے اِس قابلِ فخر تشخص کے حوالے سے زوال میں آ گئے ہیں۔ لبرٹی اسٹیچو والا امریکہ دنیا کے لئے یقیناً انسپائرنگ تھا جو سرد جنگ (1951-91)کے دوران ظہور پذیر نئی عالمی طاقت کے طور پر جمہوریت کو عالمگیر بنانے کا عظیم سیاسی عزم بحیثیت قوم بسائے ہوئے تھا، اس کے مسلسل سوویت یونین کے درپے ہونے اور طویل عرصے تک عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اس کی مخاصمت اور ایک دوسرے کے خلاف سخت پروپیگنڈے نے بھی امریکہ کو دنیا کے سامنے ’’جمہوری دیوتا‘‘ کے طور ہی پیش کئے رکھا حتیٰ کہ ویت نام کی تقسیم اور مسلط جنگ بھی ہضم ہو گئی۔ بعدازاں افغانستان، ایران اور پھر سوویت یونین کے انہدام کے بعد نیپال سے بادشاہت کا خاتمہ ہوا، سنٹرل ایشیا مشرقی یورپ اور بالٹک ریجن کی کتنی ہی آزاد و خود مختار ملکوں میں تقسیم اور عوامی جمہوریہ چین تک میں تنجے من اسکوائر پر جمہوری نظام کے لئے چینی طلبہ کے مظاہروں نے دنیا میں امریکی مغربی برینڈ جمہوریت کے امکانات کو زندہ ہی نہیں رکھا، بلکہ آگے بڑھایا۔

اسی عرصے میں خود امریکہ میں خوش کن جاری و ساری جمہوری انتخابی عمل کا یہ دوررس اور خوش کن نتیجہ بھی نکلا کہ ایک سیاہ فام امریکی دو ٹرم کے لئے صدر منتخب ہوا تاہم دنیا میں چھائی اسی جمہوری بہار کے متوازی، سوویت کمیونسٹ ایمپائر کی تحلیل کے تناظر میں صدر ریگن کے بعد آنے والی امریکی قیادت پر دنیا کو ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ میں جکڑنے کا خناس پیدا ہوا، اب یہ عیاں ہے کہ امریکی عقل کے اس اندھے پن نے اس کے مثالی جمہوری عمل کو بڑا جھٹکا لگایا لیکن کل عالم کو اپنے مرضی کے اثر میں لانے کی ہوس اور یقین کے غلبے نے جھٹکے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ حیرت اب یہ ہوتی ہے کہ یورپ (جس کا بڑا حصہ کمیونزم سے بھی آزاد ہو چکا تھا) اسے باآسانی ہضم کرکے امریکہ کا ہمنوا بن گیا یا کم از کم بخوشی خاموش۔ اب کہیں یونین کو بڑے جھٹکے لگنے سے وہ بھی مضطرب ہوئی ہے۔ بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کیسے دیکھتے دیکھتے منتخب پارلیمانی قوت بن گئی پھر ہیوی مین ڈیٹڈ بھی، کھوج لگائیں (ویسے تو اب اوپن سیکرٹ ہے)۔ پس پردہ نیوورلڈ آرڈر کا معاون کارپوریٹ سیکٹر نکلے گا جس نے آر ایس ایس اوریئنٹڈ ہندو بنیاد پرست حکومت کو آزاد بھارتی میڈیا کو دبا کر مکمل پرو مودی گودی میڈیا سمیت ہیوی مین ڈیٹ دلوایا۔

بھارتی جمہوریت پسندوں میں اس کا ماتم مودی کی پہلی ٹرم سے ہنوز جاری ہے۔ اس سے قبل ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے خناس نے چین کی طرح سائوتھ ایشین ریجن کو قابلِ قبول سرمایہ کاری سے زیر اثر لانے کی بجائے بھارت کو ’’فطری اور اسٹرٹیجکل پارٹنر‘‘ قرار دے کر پاکستان اور بھارت کی مخاصمت کو برقرار رکھا اور پاکستان کو سلامتی کے لالے ڈالے جس سے وہ اتنا چوکس ہوا کہ آج خود امریکہ اور دنیا میں پیشہ ورانہ صلاحیت اور نتیجہ حاصل کرنے میں پاکستان کی بھارت پر واضح برتری کا چرچہ ہو رہا ہے۔

عالمی سیاست کے متذکرہ پاک بھارت و افغانستان (بھی) متعلقہ پس منظر میں آج کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں نیٹو کی بھارت کی مقبوضہ افغان سرزمین پر بھرپور معاونت کے ساتھ بھاری بھرکم 20سالہ موجودگی سے ریجن میں جو گریٹ گیم جاری تھی، اُس میں مزاحمتی طالبان کے مقابل افغانستان پر مسلط تمام قوتیں نیٹو، اس کی گھڑی افغان کٹھ پتلی حکومت اور فوج اور بھارت نشٹ ہو گئی ہیں اور ایسی کہ اس چکر میں ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ واضح شکست کی حد تک چیلنج ہو گیا اور نیٹو امریکہ اور بھارت کی جمہوریتیں بھی یہ بھی ایک درد ناک کہانی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ، فرانس، برطانیہ کی جمہوریت پر کیا گزر چکی اور کیا گزر رہی ہے۔ اندازہ لگا لیں کہ اپنی جمہوریت کا سارا بھرم کل سے کنٹرول سنبھالنے والے طالبان سے آئیڈیل جمہوری ماڈل اختیار کرنے کے سفارتی سیاسی دبائو پر قائم رکھا جا رہا ہے جو کچھ مودی کے بھارت میں جمہوریت کے ساتھ ہو رہا ہے، فرانس نے اسلامو فوبیا کے بخار میں مبتلا ہوکر اپنے جمہوری ڈھانچے پر جو کلہاڑے چلائے اور برطانیہ کی جمہوریت نے جس طرح یورپی یونین میں دراڑ ڈالی، اس سب نے کورونا کی وبا کے ساتھ ساتھ دنیا میں جمہوریتوں کے سب ہی چیمپئنوں کو داخلی بحرانوں میں جکڑ لیا ہے۔ ایسے میں بھی نئے عسکری اتحادوں، گریٹ گیمز، سمندری محاذ آرائی اور افغانستان پر بددستور نظربد نے پاکستان کے لئے ایک مخصوص امریکہ، فرانس، بھارت اور عالمی سیاست کی مفاقتوں میں الجھ کر پوری لبرل مغربی جمہوری دنیا بری طرح اپنا تشخص مجروح کر بیٹھی ہے تبھی تو اس کے لئے بھارت کی بدترین فسطائیت کو ہضم کرنا بہت آسان ہو گیا۔

ایسے میں پاکستان میں ایک غیرروایتی اور قومی سیاست پر اجارہ داری اور کرپشن فری ایک سیاسی قیادت بڑی غنیمت ہے، بڑی بات ہے کہ ہر دو خاندانوں میں ملٹری ڈکٹیٹر شپ کی سلیکشن کی لیگسی کی حامل بھی نہیں طویل سیاسی جدوجہد کا حامل ہے۔ خانِ اعظم دنیا میں مانا جا رہا ہے، بڑی ’’کڑوی کسیلی گفتگو‘‘ کرکے بھی عالمی میڈیا کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے ہے، اپنا اور ملک دونوں کا وقار اور امیج بڑھا رہا ہے، پلس اس پر یہ ہے کہ (اقتصادی بحران اور سیاسی عدم استحکام تو ہمارا مستقل تشخص ہے ہی اب بڑے بڑوں کا ہوگیا) ایسے میں ہماری جو جیو پولٹیکل اور جیو اکنامک حیثیت، افغانستان، امریکہ، چین مخاصمت کے حوالے سے عود کر نکلی ہے اور بھارت جس دلدل میں پھنس گیا ہے اسے جلد سے جلد اور مکمل سفارتی حکومتی ذہانت سے استعمال کرکے بڑے بڑے اہداف بنائے، یہ زیادہ سے زیادہ اور جلد سے جلد حاصل کرنے کا زبردست موقع ہے، صورتحال ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ وماعلینا الالبلاغ