بے مثال لوگ۔ چلے گئے

September 28, 2021

یہ بات ہے 1972کی۔ میں کرشن نگر میں رہتی تھی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ صبح سویرے دروازےپہ دستک ہوئی۔ سامنے تاج سعید اور زیتون بانو کھڑے تھے۔وہ ساری رات پشاور سے لاہور تک بس سے سفر کرکے آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پشتو فلمیں بننی شروع ہوئی تھیں۔ مسرت شاہین یا کوئی اور پشتو بولنے والی ایکسٹریس سامنے نہیں آئی تھی۔ پشتو میں مکالموں کی ڈبنگ کے لئے زیتون بانو کو بلایا جاتا تھا۔ یوں توزیتون بانو پشاور ریڈیو پر پرفارم بھی کرتی تھیں۔کہانیاں اور ڈرامے بھی لکھتی تھیں۔ اس زمانے کے پشاور میں کوئی طالبانیت نہیں تھی۔ سب عورتیں اور مرد ریڈیو پر کام کرتے تھے۔ مباحثے اور مشاعرے ہوتے۔خواتین مرد سب سنانے والے اور سننے والے ہوتے تھے۔گانے والوں میں نوجوان زرسانگاپشتو میں گانے کے لئے بہت مشہور تھی۔

تاج سعید ایک ادبی پرچہ نکالتے تھے۔ ریڈیو کے لئے لکھتے تھے اور پشاور میں احمد فراز، محسن احسان، خاطر غزنوی، فارغ بخاری بہت چمک رہے تھے۔ کافی عرصے تک یہ چلتا رہا کہ صبح سویرے دروازے پر دستک ہوتی، زیتون بانو اور تاج سعید موجود ہوتےتھے۔ پھر ٹی وی آگیا اور زیتون نے یہاں بھی ڈرامے لکھے۔ پشتو کی لوک داستانوں کو اردو میں ڈھالا پٹھانی، گوری چٹی کبھی میک اپ نہیں کیا۔ کبھی سر سے دوپٹہ نہیں اتارا۔ مگر چادر کبھی نہیں لی۔ سارے ملک کی کانفرنسوں میں شرکت اور گفتگو کی۔ جب کبھی میں پشاور جاتی تو اگلی شام طے تھی محسن احسان کے گھر، خاطر یا فارغ کے گھر، جب تک فراز پشاورمیں تھا۔ اس کے گھرنہیں، کسی دوسرے دوست کے گھر فراز بھی آجاتا اور توصیف تبسم کےکہنے کے مطابق، یہ سارے نوجوان شاعر، ایک کپ چائے کی رشوت دیتے اور اپنی تازہ غزل سناتے۔ میری وجہ سے محسن کی بیوی ثروت اور زیتون بانو بھی شریک محفل ہوتیں۔

1977کے زمانے میں سیاست اور ثقافت سب بدل گئی۔ فلموں میں بھی ویسٹرن اور انڈین ڈریس ایسے کرداروں کے لئے رکھ دیا گیا۔ وہ چاہے لڑکی ہندو ہوکہ سکھنی کہ کرسچن، پشتو فلموں میں بدرمنیر اور مسرت شاہین، شعلوں کی طرح روشن ہوئے اور زیتون بانو کو پشتو ڈبنگ کے لئے بلایا نہیں جاتا تھا۔ مگر ریڈیو اور ٹی وی دونوں میاں بیوی کی کمائی کے لئے اچھا راستہ تھے۔ دوبیٹے تھے۔ ماشاء اللہ دونوں کام کرتے ہیں۔ مگر تاج کے گزرنے کے بعد، زیتون بانو گھر میں رہنے کے باوجود ایک اندھیرے کمرے میں زندگی کے سارے ورق الٹا کر سو گئی۔ زیتون بانو کے زمانے میں پشاور یونیورسٹی میں مشترکہ کلاسیں ہوتی تھیں۔ یونیورسٹی میں خواتین استاد، وحیدہ جیسی دلیر تھیں۔ پورا کے پی چینی کھانوں کو بڑے شوق سے کھاتا تھا اور زندگی رات بارہ بجے تک جاگتی تھی۔ثمرمن اللہ اور زیتون بانو گزشتہ چند سال سے بچوں کے لئے نظمیں لکھتی رہیں۔ دونوں مل کر گاتی بھی تھیں اوربچوں کو سکھا کر بہت اچھےدن گزرتے رہے۔ ان ساری صفات کے باوجود حکومتی سطح پر وہ توقیر یا وظائف نہ ملے جوان کی بنیادی زندگی کی ضرورت تھی۔1977 کے زمانے ہی میں کے۔ پی میں بہت ساری لڑکیوں نے لا پاس کیا۔ کورٹ میں پریکٹس بھی کی۔ محسن احسان کی بیٹی عائشہ نے تو لندن میں ایل ایل ایم بھی کیا۔ ان سارے بچوں کی شادیوں میں ہمارا پورا قبیلہ شامل ہوتا۔ اکثر رات دو بجے بھوک لگتی اور دیگ سے بریانی نکال کر کھاتے،پھر سو جاتے۔ابھی میں پشاور کے گردونواح میں گھوم رہی تھی کہ مجھے ایک دوست صحافی یاد آیاجو پورے صوبہ کے۔ پی کی گود میں کھیلا اور پاکستان اور افغانستان میں ساری سازشیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی۔ میرے کالم پر بس دو اہم لوگ تبصرہ کرتے تھے، ایک تو ڈاکٹر شاہ محمد مری اور دوسرے رحیم اللہ یوسف زئی ساری دنیا کے میڈیا، ہر اہم موقع پر انکے انٹرویو کرتے تھے۔ پشتوادب ہی بے شمار یاد تھا اور اردو شاعری کے عاشق تھے۔ا نہیں لکھنے سے فرصت ہی نہ تھی کہ کتابیں ڈاکٹر شاہ محمد مری کی طرح مرتب کرتے۔ ہمارے بہت بڑے صحافی جیسے نثار عثمانی، ش فرخ اور رضیہ بھٹی کو زندگی کی ہما ہمی نے اتنی فرصت ہی نہ دی۔ہفتہ پہلے مرنے والےہمارے دوست سی آر شمسی بھی اس ساری صحافتی جدوجہد میں مصروف رہے۔ نوجوانوں کو سکھایا کہ صحافت سچائی کی پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی جاتی۔ خونِ جگر شامل کرکے، خبر کی سچائی کو تلاش کیا جاتا ہے۔ پریس کلب پنڈی اور اسلام آباد میں بڑےجھگڑے پڑے۔ موجودہ حکومت نے بہت سے صحافیوں پر رزق کمانے کے دروازے بند کئے۔ وہ ہمت نہیں ہارے۔ کسی نے یو ٹیوب میں اپنا اڈہ بنانےکی کوشش کی۔ کچھ کامیاب بھی ہوئے۔ شمسی ان میں سے نہیں تھا۔ کڑھتا، جلتا، گھر والوں کو اُداسی کے ساتھ دیکھتا۔ جاتے جاتے بتایا میرا قلم بکائو نہیں تھا۔ ابھی تو میرے چند دوستوں جیسے سولنگی، طلعت حسین اور دیگر کوشش میں ہیں کہ کہیں سے سچ کی ہوا چلے۔ رضا نے کمال محنت سے ٹی وی، ہفت روزہ نکالا ہے جس پر انہیں پکڑنے کے چند گھنٹوں بعد تنبیہ کردی گئی۔ بہرحال میرے نوجوان بچے اور بچیاں، صحافت کی آزادی اور عورتوں کی مساوی حیثیت کے لئے روز جلوس نکال رہے ہیں۔ کیا کریں کہ وہ خاندان جس نے نور مقدم کو ذبح کیا۔ وہ کس منہ سے ضمانت کی درخواستیں بھیج رہے ہیں۔ خدا نہ کرے کہ بدلِ قتل کی سنہری زنجیر نور کے والدین کے گلے میں پڑ جائے۔

یہ سارا لکھتے ہوئے سوچ رہی ہوں کہ جاگ رہی ہوں کہ سور ہی ہوں۔ چھ دن صبح سے شام تک اتنی ڈرپس لگیں، اتنے انجیکشنز لگے کہ لکھتے ہوئے قلم کانپ رہا ہے۔بیماری کی غلطی میں نے خود کی، قبض ختم کرنے کو الل ٹپ دوائی کھالی۔ جسم کا سارا پانی نکل گیا، سب نے اتنی نصیحتیں کیں کہ الگ مضمون تیار ہو جائے گا۔ مگر میرےدوست زیتون اور رحیم اللہ اور شمسی کو خدا نے بلالیا اور ہمیں یاد کرنے کو زندہ رکھا۔