طرزِ حکم رانی: بدلنا تو ہوگا

September 29, 2021

گزشتہ دنوں وزیرِ اعظم عمران خان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں کسان کنونشن اور کسان کارڈ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر اسی طرح آبادی بڑھتی رہی اور پیداوار کی شرح میں اضافہ نہ ہوا تو آئندہ برسوں میں پاکستان میں بہت بھوک اور افلاس ہوگی۔ ایک سال میں اشیائے خورنی کی قیمتیں پچھلے بیس سالوں کے مقابلے میں زیادہ بڑھی ہیں۔ بڑے بڑے مافیاز قانون کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور اس کی بالادستی نہیں چاہتے۔ ماضی کے حکم رانوں نے نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیا، کرپٹ سسٹم سے فائدہ اٹھانے والے مافیاز کہتے ہیں کہ ہمیں این آر او دے دیں اور غریبوں کو پکڑیں۔ملک اور عوام کی ترقی کے لیے اگلے انتخابات کا نہیں اگلی نسلوں کا سوچنا ہوگا۔

دوسری جانب وزیراعظم کو دی جانے والی پریزنٹیشن میں پنجاب کے نئے چیف سیکریٹری نے ’’نئی طرزِ حکم رانی کے نمونے‘‘ کے حوالے سے اپنا ویژن پیش کیا ہےاور اُن مسائل کی نشان دہی کی ہےجو صوبے میں طرز ِحکم رانی خراب کرنے کے بڑے اسباب ہیں۔ ان میں کرپشن کا تسلسل، مسلسل ٹرانسفر، پوسٹنگ، عہدے کی میعاد کے حوالے سے عدم تحفظ، غلط ٹیم کا انتخاب اور نیب کا ڈر شامل ہیں۔ چیف سیکریٹری نے وسیع پیمانےپرکرپشن کو سرفہرست مسئلہ قرار دیا اور سویلین بیوروکریسی میں مسلسل ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ خراب گورننس کی ایک اور وجہ غلط ٹیم کا انتخاب ہے۔ انہوں نے میرٹ کی بنیاد پر تقرریوں اور افسران کے عہدوں کی میعاد کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔

وزیر اعظم کے مذکورہ خطاب کا بہ غورجائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جن مسائل کا ذکر کیا ان کی بنیادی وجہ دہائیوں سے جاری خراب طرزِ حکم رانی ہے ۔ صوبہ پنجاب کے نئےچیف سیکریٹری نے اگرچہ ایک صوبے میں طرزِ حکم رانی کا مختصر احوال پیش کیا ہے ،لیکن یہ کہانی ہمارے ہر صوبے کی ہے۔

ریاست،حکومت اور طرزِ حکم رانی

ریاست اس دور میں بہت بڑا موضوع ہےجس کے ساتھ گورننس یا حکومت اور قوانین جیسے الفاظ منسلک ہیں ۔ ملکی اور غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں ہم اکثر گورننس کا لفظ سنتے ہیں جس میں گُڈ یا بیڈ گورننس کی باتیں ہوتی ہیں۔ یہ ذرایع ابلاغ کا ایک مثبت پہلو ہے، ورنہ پہلے عام لوگ اس لفظ سے نا آشنا تھے۔طرزِ حکم رانی یاگورننس کا تصوّر بہت وسیع ہے جس کی اس صدی میں بالخصوص کافی تکرار ہو رہی ہے ۔کوئی ملک فلاحی ریاست کے درجےپر پہنچ جائے یا بحرانوں کا شکار ہوکر ناکام ریاست میں تبدیل ہوجائے، ہر جگہ گورننس کے مسائل رہتے ہیں۔

یہ چند اصول و ضوابط کانام ہےجن کے ذریعے نہ صرف عوام کی بنیادی بلکہ ثانوی ضروریات بھی پوری ہوسکیں اورروزگار، رہایش، انصاف، آزادی ، تعلیم و صحت جیسے معامالات میں حکومت بہترین انداز میں عوام کی خدمت کرسکے۔ اگر آسان الفاظ میں گورننس کو بیان کیا جائے تو یہ ادارہ سازی کے عمل کا دوسرا نام ہے۔ کسی ریاست کو ناپنے کا پیمانہ آج کے دور میں طرزِ حکم رانی ہی ہے۔

افراد نہیں ادارے

کوئی حکم راں خواہ کتنا ہی بہتر اور قابل اور اہل ہو وہ کسی ریاست کے لیے ناگزیر نہیں ہوتا اس کی زندگی محدود ہوتی ہے جب کہ ریاست یا معاشرے قایم رہنے کے لیے ہوتے ہیں۔لہذا بہترین حکم راں اپنی اہلیت، قابلیت،ذہانت اور مہارت اداروں کو منتقل کردیتا ہے۔ ریاستی ادارے اجتماعی مفاد کے لیے بنائے جاتے ہیں اس لیے کسی ریاست میں اداروں کو شخصیات سے بالا تر درجہ دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں طرزِ حکم رانی بہتر ہونے کی وجہ سے ان کے ادارے شہریوں کی بنیادی کے علاوہ ثانوی ضروریات بھی پوری کرتےہیں۔اسی لیے ان کا معاشرہ مطمئن نظر آتاہے ۔

اسی اطمینان کی وجہ سے ان کی توجہ روزمرہ کے مسائل سے ہٹ کر مستقبل کی صورت گری کی طرف مائل ہوتی ہے اور وہ ترقی کے زینے چڑھتے جاتے ہیں، ایجادات کرتے ہیں اورنت نئی بحثیں چھیڑتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں نت نئے سوالات جنم لیتے ہیں جن کے جواب تلاش کرتے کرتے وہ نئی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔لیکن ہمارے جیسے ممالک اپنے روزمرہ کے معاملات ہی سے پیچھا نہیں چھڑا پاتے لہذا ترقی پذیر ملک کے زمرے سے نکل ہی نہیں پاتے۔

مسلّمہ عالمی معیارات

ریاست کا نظام چلانے کا عمل طرزِ حکم رانی یا گورننس کہلاتاہے۔ اس کا تعلق ان فیصلوں سے ہوتا ہے جو ریاست کے عوام کی اُمنگوں اور خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں، انہیں طاقت ور بناتے ہیں اور ریاست کی کارکردگی کا تعیّن کرتے ہیں۔ طرزِ حکم رانی کا بہ راہ راست تعلق حکومت کے کرتا دھرتائوں یا راہ نمائوں سے ہوتا ہے۔ جدید قومی ریاستوں میں یہ سارا عمل اور اس کے لیے درکار نظام، حکومت ایک مخصوص انداز میں چلاتی ہے۔ جب کسی ر یاست کی حکم رانی کی طرزِ کی بات کی جاتی ہے تو یہ دیکھنا پڑھتا ہے کہ بہتر طرزِ حکم رانی کے جو مسلّمہ عالمی معیارات ہیں، ان کی کس حد تک پاس داری کی جارہی ہے۔

گورننس کا لفظ یونانی زبان کا ہے، جس کا مطلب کسی شئے یا نظام کو چلانا ہے اور اسے پہلی مرتبہ پلیٹو نے استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد یہ لاطینی زبان میں رائج ہوا اور اس کے بعد اسے متعدّد زبانوں میں استعمال کیا جانے لگا جس میں سے ایک انگریزی زبان ہے۔ کسی ریاست پر حکم رانی کرنے یا کسی تجارتی یا غیر منافع بخش ادارے کا نظام چلانے کا عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس عمل کے مثبت اور منفی، دونوں مقاصد ہوسکتے ہیں۔ تاہم جب کسی ریاست کا نظام چلانے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مقصد ریاست کے حکم رانوں کی جانب سے ملک اور قوم کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات ہوتے ہیں۔

عالمی ترقیاتی بینک اس عمل کی تعریف یوں کرتا ہے: ’’کسی ریاست کی جانب سے ترقّی کے لیے اقتصادی اور سماجی وسائل کی انتظام کاری کے ضمن میں اختیارات کے استعمال کا طریقہ‘‘۔عالمی بینک کا ورلڈ وائیڈ گورننس پروجیکٹ اس کی تعریف یوں کرتا ہے: ’’کسی ملک میں اختیارات استعمال کرنے والے ادارے اور روایات‘‘۔ اس تعریف کے ضمن میں یہ مدنظر رکھا جاتا ہے کہ کسی ملک کی حکومت کس عمل کے ذریعے منتخب ہوتی ہے، اس کی نگرانی اور اسے تبدیل کرنے کا کیا نظام ہے، اس ملک کی حکومت کی جانب سے ٹھوس لائحہ عمل بنانے اور اس پر عمل درآمد کرانے کی اہلیت اور قابلیت کیا ہے، اس ملک میں عوام کی آراء کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اور اس ملک کے وہ ادارے جو سماجی اور اقتصادی معاملات چلانے کے ذمے دار ہیں، ان کے درمیان کس حد تک ہم آہنگی ہے۔ طرزِ حکم رانی کی ایک تعریف کہتی ہے: ’’اداروں کا استعمال، ان کا ڈھانچا، اختیارات، حتیٰ کہ ان کے درمیان تعلق اور سماجی اور اقتصادی معاملات کو کنٹرول کرنے کے ضمن میں وسائل مختص کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی صلاحیت اور اہلیت کا نام طرزِ حکم رانی ہے‘‘۔

طرزِ حکم رانی دراصل سیاسی نظام کی اس حکم رانی کا نام ہے جو ریاست کے اندرونی اور بیرونی مسائل اور تنازعات کا عالمی سطح پر قابلِ قبول حل نکالتی ہے۔ اس مقصد کے لیے دو مراحل سب سے اہم ہوتے ہیں۔ یعنی مسائل کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل یا پالیسی بنانا اور اس پالیسی کی قانونی اور اخلاقی حیثیت ہونا۔ یہ دونوں مراحل اسی صورت میں طے کیے جاسکتے ہیں جب ریاست میں ان کے لیے درکار متعلقہ ادارے یا فورمز موجود ہوں۔ تاہم اس مرحلے پر سیاست اور طرزِ حکم رانی میں فرق جاننا ضروری ہے۔

سیاسی عمل اسے کہتے ہیں جس کے تحت مختلف خیالات اور مفادات رکھنے والے کسی متفقہ فیصلے تک پہنچتے ہیں، وہ اس فیصلے کو ماننے کے پابند ہوتے ہیں اور وہ فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول لائحہ عمل کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب طرزِ حکم رانی، انتظامی نظام اور ریاست کے معاملات چلانے کے لیے اداروں کو موثر انداز میں استعمال کرنے کا نام ہے۔ اس عمل کے دوران سیاسی عمل کے ذریعے کیے جانے والے متفقہ فیصلوں کے موثر نفاذ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

سیاست اور طرزِ حکم رانی کو علیحدہ علیحدہ خانوں میں دیکھنے اور رکھنے کے بارے میں کئی نظریات ہیں۔ تاہم معاصر طرزِ حکم رانی اور نظریات بعض اوقات اس بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں میں اصل حیثیت اختیارات کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن، ہم اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہیں کہ سیاست کی حدود کیا ہیں اور طرزِ حکم رانی میں اس کا کتنا عمل دخل ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد یہاں حکم رانی کی طرز پر بات کرنا ہے جو اچھی ہوتی ہے یا بُری۔

کسی ریاست کی طرزِ حکم رانی کی جانچ کے لیے عالمی سطح پر مسلّمہ معیارات موجود ہیں۔ عالمی بینک کے ورلڈ وائیڈ گورننس انڈی کیٹرز پروجیکٹ نے اس ضمن میں چند نکات خاص طور سے وضح کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:

(1) کسی ریاست میں عوام کی آراء کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں احتساب کا نظام کیسا ہے(2) ریاست کا سیاسی نظام کس حد تک مستحکم ہے اور وہاں تشدّد کا عنصر موجود ہے یا نہیں ہے (3) حکومت کس حد تک موثر ہے؟ (4) ریاست کے نظام کی نگرانی کرنے والے نظام کا معیار کیسا ہے؟(5) ریاست میں قانون کی حکم رانی کی کیا صورتِ حال ہے؟(6) ریاست میں بدعنوانی پر کوئی کنٹرول ہے یا نہیں؟

طرز ِحکم رانی کے اشاریے

عالمی بینک 1996ء سے 200 ممالک کا درج بالا نکات کی روشنی میں جائزہ لیتا آرہا ہے اور ان نکات کی روشنی میں 2012ء سے ان ممالک میں طرزِ حکم رانی کے بارے میں اشاریے جاری کرتا رہتا ہے، جن کی مدد سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممالک میں طرز حکم رانی کیسی ہے۔ مذکورہ ادارہ اس مقصد کے لیے تیس سے زاید اداروں یا تنظیموں کے معلومات فراہم کرنے والے تقریباً چالیس ذرایع سے معلومات حاصل کرتا ہے۔ عالمی ترقیاتی اصطلاح میں بہتر طرز حکم رانی یا گُڈ گورننس کا مطلب یہ ہے کہ کس ریاست میں عوام سے متعلق معاملات کس طرح چلائے جاتے ہیں اور سرکاری وسائل کس طرح استعمال ہوتے ہیں۔

اس اصطلاح کے مطابق گورننس دراصل فیصلہ سازی اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانے یا نہ کرانے کے عمل کا نام ہے۔ بہتر طرزِ حکم رانی کا تصوّر عموماً اس وقت ایک نمونے کے طور پر ابھرتا ہے جب غیر موثر اقتصادیات اور سیاسی اداروں کا ممکن اقتصادیات اور سیاسی اداروں سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ اس تصوّر کا بنیادی نکتہ حکومت اور اس کے اداروں کی وہ ذمے داری ہے جو عوام کی ضروریات پوری کرنے سے متعلق ہوتی ہے۔ اس ضمن میں براعظم یورپ اور امریکا کی ان حکومتوں کو بہت کام یاب گردانا جاتا ہے، جو لبرل ڈیموکریٹک ریاستیں ہیں اور ان براعظموں کے وسط میں واقع ہیں۔

یہ ریاستیں اور ان کے ادارے اکثر دیگر ریاستوں اور اداروں سے اپنا موازنہ کرنے کے لیے معیارات بناتے ہیں۔ وہ اس ضمن میں ریاست اور ان کے اداروں میں کی جانے والی اصلاحات، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ اور عالمی بینک سے ان کے تعلقات اور ان کے نتائج، ریاست میں جمہوریت کی صورت حال، سیاسی جماعتوں کے کردار، حکم رانوں کی دانش ورانہ فکر، وہاں تنقید کی صورت حال اور اسے دی جانے والی اہمیت، دیگر ریاستوں کے ساتھ ریاست کے تعلقات، مارکیٹ اور حکومت کے درمیان، عوام اور حکومت ، نجی یا رضاکارانہ بنیادوں پر چلنے والے اداروں اور حکومت، منتخب افراد اور مقرر کیے گئے عہدے داروں، مقامی اداروں اور شہری اور دیہی آبادیوں، قانون سازوں اور ریاست کے انتظامی اداروں کے درمیان تعلقات کو مدنظر رکھتی ہیں۔

تاہم ان معیارات کو گُڈ گورننس کی جانچ کے لیے حتمی قرار نہیں دیا جاتا ہے، کیوں کہ اس بارے میں کئی آراء موجود ہیں۔ لیکن طرزِ حکم رانی جانچنے والے ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ بہتر طرزِ حکم رانی کے فروغ کے لیے ریاست، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے اداروں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ان میں اصلاحات کرکے بہتر طرزِ حکم رانی کا مقصد بڑی حد تک حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مختلف ثقافتوں میں ان اصلاحات کی ضرورت اور مشکل مختلف ہوسکتی ہیں جن کا انحصار کسی ریاست کے معاشرے کی ترجیحات سے ہوسکتا ہے۔

ایک مسئلے سے جُڑے متعدّد مسائل

پاکستان بھی ایک ایسی ہی ریاست ہے جس کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بہتر طرزِ حکم رانی کی عدم موجودگی ہے۔ تاہم اس ایک مسئلے سے بہت سے مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس ضمن میں جو معیارات مقرر کیے گئے ہیں وہ مختصراً یہ ہیں:

٭ ریاست اور اس کے اداروں کے اختیارات کے استعمال کے ضمن میں احتساب اور بدعنوانی کے خلاف اقدامات ٭ حکومت کا موثر اور مستعدد ہونا٭عوام کی شمولیت ٭ شفافیت ٭ ذمّے دارانہ رویّہ٭اتفاقِ رائے پر مبنی،منصفانہ اور غیر جانب دارانہ انداز۔

2005ء میں عالمی راہ نمائوں کی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ اقتصادی ترقی، غربت اور بھوک ختم کرنے اور پائے دار ترقی کے لیے بہتر طرزِ حکم رانی ضروری ہے۔ بہتر طرزِ حکم رانی کے لیے حکومت میں عوام کی حقیقی شمولیت اور انہیں اختیارات دینا لازم ہے۔ پاکستان میں یہ تمام مسائل موجود ہیں، لہٰذا یہاں بہتر طرزِِ حکم رانی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔

بہتر طرزِِ حکم رانی کی بنیاد ’’آزادی‘‘ کے اصول پر رکھی جاتی ہے۔ یہ آزادی اظہار کی ہوتی ہے، سوچنے کی ہوتی ہے، انصاف تک رسائی کی ہوتی ہے، بھوک سے نجات کی ہوتی ہے اور مساوی حق کی ہوتی ہے۔ ان حالات میں ریاست کے تمام شہریوں کے حقوق یک ساں ہوتے ہیں۔

کسی کے خلاف امتیاز نہیں برتا جاتا۔ ہر ایک کے لیے انصاف اور احتساب کے یک ساں اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستیں ان ہی اصولوں پر عمل کرکے اپنی حکم رانی کی طرز بہتر سے بہتر بنا رہی ہیں اور ای گورننس کے دورمیں داخل ہوچکی ہیں، لیکن ہم اس شعبے میں بھی معکوس ترقّی کر رہے ہیں۔ایسا کب تک چلے گا؟ایک نہ ایک روز ہمیں بلنا تو ہوگا نا۔

مسائل اور رکاوٹیں

یہ درست ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں بہتر طرزِ حکم رانی کا مسئلہ موجود ہے اور اس کا تعلق ’’اچھی سیاست‘‘ سے ہے۔ اور سیاست اور دولت کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ پاکستان میں ان دونوں کا گٹھ جوڑ بہت مضبوط ہے۔ لیکن یہاں اس ضمن میں تیسرا عنصر بھی موجود ہے۔ جسے سول۔ ملٹری تعلقات کہا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے ملک میں دو اہم مراحل بہت خطرناک حالات میں ہیں یعنی منصوبہ بندی اور سالانہ میزانیے بنانے کے عمل میں موجود خرابی۔ اس ملک میں مختلف مفادات رکھنے والے لوگوں کو محاصل کی ادائیگی کے دائرے میں لانے سے بچانے کی روایت بہت پرانی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس میں ایک تبدیلی آئی ہے اور اب اس کا مرکز شہری علاقوں کی طرف ہوگیا ہے۔

محاصل کم ہونے کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کم ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے والے منصوبے بہت کم تعداد میں بنائے جاتے ہیں۔ سیاسی سطح پردُوربیں راہ نما دست یاب نہ ہونے کی وجہ سے ہم ریاست کی داخلی اور خارجی حکمت عملی کم زور بنیادوں پر بناتے رہے جس کی وجہ سے ہماری جغرافیائی سرحدوںپر ہمیشہ سے مشکلات رہیں اور اقتصادی میدان میں ہم پائے دار ترقی نہ کرسکے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہم ریاست کے زیادہ تر وسائل دفاع کی مد میں خرچ کرتے رہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ریاست نے کبھی کوئی حقیقی انقلابی منصوبہ شروع نہیں کیا۔

بدعنوانی اور اقربا پروری ملک میں بہتر طرزِ حکم رانی کی راہ میں حائل دوسری بڑی اور اہم رکاوٹ ہے۔ لیکن گورننس اور سیاسیات کے ماہرین اسے پہلی وجہ ہی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بہ قول جب تک کسی ملک میں دُوربین، دوراندیش، اہل، قابل، جرأت مند اور مخلص قیادت اقتدار میں نہیں آتی، اس وقت تک اس ملک سے بدعنوانی اور اقرباپروری جیسی عفریتوں کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ایسی قیادت لانے کے لیے ضروری ہے کہ ریاست کے لوگوں کی آراء، امنگوں اور جذبات کو اہمیت دی جائے اور عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں شریک کیا جائے۔ چناں چہ جب تک کسی ملک میں جمہوریت حقیقی معنیٰ میں فروغ نہیں پاتی وہاں مذکورہ صفات والی قیادت کا اقتدار میں آنا محال ہوتا ہے۔

ہماری تاریخ سیاسی عمل میں بار بار رخنہ اندازی، جمہوری عمل کے فقدان، سیاست میں فوج کی بار بار مداخلت، وسیع پیمانے پر بدعنوانی، جاگیردارانہ نظام کی کارفرمائیوں، اداروں کے درمیان تصادم، آئینی بحرانوں، بڑھتے ہوئے افراطِ زر، وسائل کے استعمال میں بدانتظامی، احتساب کے فقدان، قانون کی عمل داری نہ ہونے، امن و امان کی بد سے بدتر ہوتی صورت حال، سرکاری فنڈزکےبےجا استعمال، فرقہ واریت، لسانی تفریق، انتہا پسندی اور بین الاقوامی سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ لیکن ان تمام مسائل کی ذمے داری حکم رانی کی بدترین طرز پر ہے۔ یہ تمام مسائل ایک دوسرے سے اتنے پے چیدہ انداز میں نتھی ہیں کہ مستقبل قریب میں انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ تاہم اگر ملک میں جمہوری عمل میں تسلسل رہے، ریاست کی حکمت عملیوں میں باربارتبدیلی نہ کی جائے اور عوام کو فیصلہ سازی کے عمل اور حکومت میں شریک کیا جائے تو بہ تدریج صورت حال بہتر ہوسکتی ہے۔

مداخلت،عدم استحکام ،جاگیر دارانہ ذہنیت

یہ درست ہے کہ ہر ریاست میں سیاست کا بعض اوقات بہت منفی کردار ہوتا ہے اور آج دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی ریاست ہو جو اس مسئلے سے پاک ہو۔ دنیا کی کوئی بھی ریاست سیاسی خلفشار کے ماحول میں قائم نہیں رہ سکتی۔ ماہرین سیاسیات کے بہ قول سیاسی عدم استحکام ہی ریاست میں تمام برائیوں کی جڑ ہوتا ہے۔ وہ اس ضمن میں برصغیر میں مغلیہ حکومت ختم ہونے کی مثال دیتے ہیں ۔پاکستان طویل عرصے سے سیاسی خلفشار والے حالات سے گزر رہاہے۔ اس کے نتیجے میں ملک کی اقتصادی ترقی اور استحکام پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔

اقتصادی بدحالی اور ملکی ترقی رُکنے کی وجہ سے ملک میں دیگر مسائل نے جنم لیا ہے۔ ان حالات کے باوجود ہماری سیاست کے کرتا دھرتا اپنے مفادات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم ماہرین سیاسیات ان تمام مسائل کا تعلق آئینی خلا اور آئینی مسائل سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بہ قول قیامِ پاکستان کے سات برس بعد تک یہ ملک بغیر کسی آئین کے چلایا گیا جس کی وجہ سے بہتر طرزِ حکم رانی کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔ کسی ملک کا آئین پالیسیزبنانے کے لیے ایک فریم ورک مہیا کرتا ہے۔

ریاست کے امور چلانے سے متعلق فیصلے آئینی حد بندیوں کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں، کیوں کہ آئین کی موجودگی میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا جو آئینی حدود سے متجاوز ہو اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو آئین کے تحت وہ سزا کا مستحق ہوتاہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں یہ بہت سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں وہ برطانیہ کی مثال دیتے ہیں۔ جہاں جنرل کرام ویل کی لاش کو برسوں بعد قبرسے نکال کر علامتی انداز میں پھانسی دی گئی تھی، کیوں کہ وہ ریاست ترقی کرنا اور اقوامِ عالم میں باوقار مقام حاصل کرنا چاہتی تھی۔

پاکستان میں بار بار حکومت میں فوج کی مداخلت بہتر طرزِ حکم رانی کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ قرار دی جاتی ہے۔ ماہرینِ سیاسیات کے بہ قول اس عمل نے ریاست کے فیصلہ سازی کے عمل کو بہت بری طرح متاثر کیا۔ ان کے بہ قول اس عمل نے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی تاثر ابھارا۔

جاگیر دارانہ ذہنیت اور نظام نے بھی ملک میں بہتر طرزِ حکم رانی کی راہ میں اپنے تئیں روڑے اٹکائے۔ اس ذہنیت اور نظام نے ملک میں ترقیاتی عمل میں بڑا خلاء پیداکردیا، وسیع پیمانے پر بدعنوانی کو فروغ ملا ،دولت مند جاگیرداروں نے ملک کے سیاست دانوں سے گٹھ جوڑ کرکے عوام کو ان کے تقریباً تمام بنیادی حقوق سے محروم کردیا اور قومی خزانہ خالی کرنے کا عمل شروع کیا جو آج تک جاری و ساری ہے۔

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کی مدد اور تعاون سے قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیا جارہا ہو وہ خود بدعنوانی اور اقربا پروری کا شکار نہ ہوں؟ لہذا افسر شاہی نے بھی اس ’’کارِ خیر‘‘ میں دل کھول کر حصہ لیا۔ ان تمام مسائل نے مل کر ملک کو ناکام ریاست کی تمام مروّجہ تعریفوں کے عین مطابق بنا دیا۔ اگلے مرحلے میں ریاست کے اداروں کے درمیان تصادم شروع ہوا اور ریاست میں حکم رانی کا زوال شروع ہوا (جو پہلے ہی بہت کم زور اور خراب تھی)۔

پھر جب جب ملک میں تھوڑے تھوڑے عرصے کے لیے نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں وہ اپنے آپ کو ملک کا نظام موثر انداز میں چلانے کے لیے اہل اور قابل ثابت نہ کرسکیں۔ سیاسی جماعتیں اور ماہرینِ سیاسیات اس ضمن میں کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ وہ خطّے اور دنیا کے حالات، اندرونی اور بیرونی دبائو، ورثے میں ملنے والے مسائل، سیاست دانوں کی نا اہلی، حکومت میں آنے سے قبل موثر انداز میں حکومت کرنے کے لیے کوئی تیاری نہ ہونے، مختلف وزارتوں کو موثر انداز میں چلانے والی ٹیم کے فقدان، دور اندیشی، اخلاص اور ملک کو ترقی دینے کی لگن نہ ہونے کو مذکورہ جمہوری حکومتوں کی ناکامی کی اہم وجوہ قرار دیتے ہیں۔

تاہم بعض سیاست داں اور ماہرینِ سیاسیات اس کی سب سے اہم وجہ سول۔ ملٹری تعلقات کو قرار دیتے ہیں۔ ان کے بہ قول طویل عرصے سے ملک میں سیاست دانوں اور جرنیلوں کے درمیان اعتماد کے فقدان اور بحران نے ریاست کا ڈھانچا ہلا دیا ہے۔ ان کے بہ قول اعتماد کے اس فقدان اور بحران نے ریاست کے ہر ادارے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں جس کا فائدہ بہت سے غیر ریاستی عناصر نے وسیع پیمانے پر اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں ۔

ان حالات میں بعض حلقوں کے بہ قول بہتر طرزِ حکم رانی کی بات کرنا عبث ہے۔تاہم صورت حال تبدیل کرنے کا نسخہ وہ ایک ہی بتاتے ہیں، یعنی جمہوری عمل میں تسلسل، آزادی اظہار، انصاف کی بلا امتیاز فراہمی اور احتساب کا شفاف اور کڑا نظام۔ بہتر طرزِ حکم رانی کے عالمی معیارات بھی اس نسخے کی توثیق کرتے نظر آتے ہیں۔ تو پھر ہم یہ ’’آزمودہ نسخہ‘‘ کیوں استعمال نہیں کرتے؟ جس روز ہم اس سوال کا جواب پالیں گے، اسی روز سے ملک میں حکم رانوں اور حکم رانی کی طرز تبدیل ہونا شروع ہوجائے گی۔ لیکن ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس تبدیلی کے لیے مِن حیثُ القوم تیّار ہیں؟