ریڈیو پاکستان کراچی

September 29, 2021

کراچی جو پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا، ریڈیو نشریات جیسی سہولتوں سے محروم تھا۔ ہر چند کہ ڈھاکہ، لاہور اور پشاور میں پاکستان بننے سے پہلے ہی ریڈیو اسٹیشنز تھے، لیکن پھر بھی پورے پاکستان کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ناکافی تھے، جس کے پیشِ نظر کراچی میں ریڈیو اسٹیشن کے لیے جگہ تلاش کی گئی۔ ابتدائی دور تھا، جگہ تلاش کرنا اور پھر ریڈیائی آلات اور پُرزہ جات کا حصول جوئے شِیر لانے سے کچھ کم نہ تھا۔ ہندوستان سےگنے چُنے انجینئرز پاکستان آئے تھے۔

انٹیلی جنس اسکول کی ایک بوسیدہ بیرک میں سوواٹ کا میڈیم ویو اور دو سو پچاس واٹس کا شارٹ ویو ٹرانسمیٹرز نصب کرکے اور کے ایم سی کی گٹر لائن کا ایک بڑا پائپ کھمبے کی جگہ کھڑا کرکے یہ کام انجام دیا گیا۔ انٹیلی جنس اسکول جو متعدد بیرکوں پر مشتمل تھا، ان سرکاری ملازمین کے لیے مختص تھا، جو حال ہی میں اپنا وطن چھوڑ کر آئے تھے۔ زیڈ اے بخاری (مرحوم) جو اس وقت کنٹرولر آف براڈ کاسٹنگ تھے، ان کی کوشش سے ان بیرکوں میں چند بیرک مزید حاصل ہوگئے تھے۔ یہ جگہ شہر سے دورکوئینز روڈ پر واقع تھی، جو اب مولوی تمیز الدین خاں روڈ کہلاتی ہے۔ ان بیرکوں میں ریڈیو اسٹیشن قائم کردیا گیا۔ 14؍ اگست 1948ء سے باقاعدہ اس کی نشریات شروع ہوگئی تھیں۔

افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوت پاک سے ہوا اور مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب نے دعائیہ انداز میں امتِ مسلمہ کے لیے دعائے خیر کی۔ اسی دن رات کو کل پاکستان مشاعرہ منعقد ہوا۔ یہ ریڈیو پاکستان کے انجینئرز کا پہلا کارنامہ تھا، جس میں انہوں نے ابتدا ہی میں اپنی اہمیت کا لوہا منوالیا۔ انٹیلی جنس اسکول کی عمارت جس کی چار بیرکوں میں ریڈیو پاکستان قائم تھا، بوسیدہ تھی ۔

ہاشم رضا صاحب (مرحوم) اُس وقت کراچی کے پہلے ایڈمسنٹریٹر تھے۔ اُن کی کوشش سے بندر روڈ پر کراچی لوکل بورڈ (ڈسٹرکٹ کونسل) کی عمارت میں براڈ کاسٹنگ ہاؤس منتقل کردیا گیا۔ عارضی طور پر اسٹوڈیوز بنائے گئے۔ اور بی بی سی کے طرز پر ساؤنڈ پروفنگ کی گئی۔ اس طرح ان ماڈرن اسٹوڈیوز سے نشریات کا آغاز بین الاقوامی معیار پر شروع ہوگیا۔

16؍جولائی 1951ء کو اس وقت کے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں نے اس کا افتتاح کیا۔ قیام پاکستان کے بعد نشریات کا دائرہ بہت محدود تھا۔ آواز پاکستان کے ساڑھے چار فی صد علاقے اور تقریباً سات فی صد آبادی تک پہنچ سکتی تھی۔ ان نامساعد حالات میں ریڈیو کی کارکردگی قابلِ ستائش تھی، جس کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مہاجرین کے قافلے جوق درجوق پاکستان میں داخل ہورہے تھے۔ اعزاء و اقربا بچھڑ گئے تھے۔ ایک عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ریڈیو پاکستان نے لاکھوں مہاجرین کو بسانے میں حکومت کی مدد کی۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو ملوانے کا کام بھی سر انجام دیا۔

ریڈیو سے ان بچھڑے ہوئے لوگوں کے پیغامات نشر کیے جاتے تھے۔ پیغامات کا یہ سلسلہ ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘ کے نام سے شروع ہوا جو بہت کامیاب رہا۔ کئی بچھڑے لوگ اپنے عزیزواقارب سے مل گئے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے ایسے جیّد ادیب اور عالم وابستہ ہوگئے تھے، جن کی موجودگی اور ہمہ وقت کوششوں سے ریڈیو پاکستان ابتدا ہی سے ایک عہد ساز وسیلۂ ابلاغ بن کر ابھرا۔ چوٹی کے فن کار، موسیقار، ڈراما نگار، گلوکار اور تھیٹر سے متعلق لوگ پہلی صفوں میں موجود تھے۔ اس طرح ریڈیو ثقافتی، ادبی، جمالیاتی اور تفریحی نشریات کا سرچشمہ بن گیا۔ مشاعروں، مباحثوں، مذاکروں اور ترقیاتی شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ ہوتا تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چھوٹا سا ٹرانسمیٹر بڑے ہائی پاور ٹرانسمیٹر میں تبدیل ہوتا گیا۔ ذکر ریڈیو پاکستان کراچی کا ہو تو براڈ کاسٹنگ ہائوس کی کینٹین اور صحن میں لگے قدیمی بڑے درختوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ یہ ان کا تاریخی یادوں میں سے ایک ہے اور ابتدائی دور کے لوگوں کی یادوں کی چلمن میں آج بھی گوشہ نشین ہے، جو ریڈیو سے وابستہ تھے۔ کراچی کی ہر قابلِ ذکر شخصیت نے اس کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی، شامی کباب کھائے اور دال چپاتی کا لنچ کیا ہے۔ یہاں فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ غرض ریڈیو پاکستان کراچی ایک ایسی دنیا تھی، جہاں ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا۔

ہرچند کہ اب ریڈیو کی اپنی کثیرالمنزلہ عمارت سوک سینٹر گلشن اقبال میں بن چکی ہے اور ریڈیو کے دفاتر وہاں منتقل کردیے گئے ہیں، لیکن ریڈیو کی نشریات اسٹوڈیوز میں آگ لگنے تک یعنی 28؍اکتوبر 2007ء تک ایم اے جناح روڈ (بندر روڈ) پر واقع براڈ کاسٹنگ ہائوس سے جاری و ساری تھیں۔ ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی یہ عمارت لوکل بورڈ کی بلڈنگ تھی، جو شروع میں عارضی طور پر براڈ کاسٹنگ ہاؤس قائم کرنے کے لیے دے دی گئی تھی۔ بعد میں یہ طے ہوا کہ اسی جگہ ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کی جائے جو نشریات کی ضرورتوں کو پورا کرسکے، لیکن ریڈیو پاکستان کے پاس اس کی میوٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے تمام تر کوششوں کے باوجود اس منصوبے پر عمل نہ ہوسکا۔

سوک سینٹر گلشن اقبال میں پندرہ منزلہ عمارت بن تو گئی، لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر اس عظیم الشان عمارت کی دس منزلوں کو اے جی سندھ کو کرایہ پر دے دیا گیا۔

اب ریڈیو پاکستان کراچی میں فن و ثقافت کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، جو کبھی اس کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ (غلام حسین جعفری کی کتاب بابائے نشریات مارکورنی سے بخاری تک سے انتخاب)