پختونخوا حکومت ترقیاتی کاموں کی جلد تکمیل کیلئے سرگرم

September 30, 2021

خیبر پختونخوا حکومت اپنے تین سال مکمل کرنے کے بعد اب اگلے انتخابات کی مہم کی طرف بڑھ رہی ہے، ظاہر ہے حکومت کے پاس اب کم و بیش چودہ، پندرہ مہینوں کا عرصہ ہی باقی رہ گیا ہے کیونکہ آخری چھ ،سات مہینے پھر بیورکریسی ویسے ہی حکومتوں کے کنٹرول سے نکل جاتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے جاری ترقیاتی منصوبوں کی جلدتکمیل اور ان کے افتتاح پرغور شروع کیا ہے،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان بھی اس معاملہ میں کافی سرگرم ہوچکے ہیں اور گزشتہ دو تین ماہ کے دوران وہ مختلف اضلاع کے دورے کرکے وہاں متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرچکے ہیں۔

ساتھ ہی صوبہ میں بعض اہم منصوبوں کی منظوری بھی دی گئی ہے جن میں سوات موٹروے فیز ٹو، دیر موٹر وے اور ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے جیسے اہم اور میگا پراجیکٹ شامل ہیں ، ظاہر ہے حکومت کی کوشش ہوگی کہ ان منصوبوں پر نہ صرف جلد از جلد کام شروع کیا جائے بلکہ اگلے عام انتخابات سے قبل ہی انہیں مکمل کیا جائے تاکہ جب حکمران جماعت اگلے چناؤ کیلئےانتخابی میدان میں اترے تو اس کے دامن میں کئی مکمل شدہ پراجیکٹ پڑے ہوں، اس وقت ایک طرف صوبائی حکومت غیر محسوس انداز میں انتخابی مہم چلانے میں مصروف دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف ابھی تک صوبائی کابینہ کی خالی نشستوں پر نئی شمولیتوں کا معاملہ التوا میں پڑا ہوا ہے۔

چند ہفتے قبل جب صوبائی وزرا، مشیروں اور معاونین کے استعفوں کی جو لہر چلی ہوئی تھی اس کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ جلد ہی ا ن کی جگہ نئے چہرے کابینہ میں شامل ہوجائیں گے اور اس کے بعد کابینہ میں ردوبدل اور توسیع کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائیگا، خود حکومتی ترجمان کامران بنگش نے بھی یہی کہا تھاکہ یہ آخری مرحلہ ہوگا اس کے بعد کابینہ میں کوئی ردوبدل ہوگی نہ ہی کسی سے استعفیٰ لیا جائیگا بلکہ تمام تر توجہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور اگلی انتخابی مہم کی تیاری پر صرف کی جائے گی لیکن حیرت ہے کہ اتنے اہم مرحلہ پر بھی صوبائی حکومت ابھی تک کابینہ کی تکمیل میں ناکام رہی ہے اوریہ مرحلہ تاحال تاخیر کا شکار ہوتا جارہا ہے۔

حتیٰ کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے بھائی فیصل امین گنڈا پور حلف اٹھانے کے پانچ ماہ بعد بھی پسند کا محکمہ حاصل کرنے میں ناکام ہے اور موصوف مسلسل وزیر بے محکمہ چلے آرہے ہیں، وقتاً فوقتاً یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ بعض مزید وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی سرخ دائرہ میں آچکے ہیں اور بہت جلد ان کی باری بھی آنے والی ہے چنانچہ اس صورت حال کے پیش نظر کابینہ ارکان غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار ہیں۔

جس کی وجہ سے سرکاری امور متاثر ہورہے ہیں، ساتھ ہی جو محکمے خالی پڑے ہیں جن میں بلدیات جیسا اہم ترین محکمہ بھی شامل ہے، ایسے تمام محکموں کے کام ٹھپ پڑے ہیں جو خود صوبائی حکومت کی تیز رفتار ترقیاتی حکمت عملی کی راہ میں بڑی رکاؤٹ بن سکتے ہیں، وزیر اعلیٰ محمود خان اس وقت مکمل بااختیار ہیں اور تمام فیصلوں میں وزیر اعظم نے ان کو آزادی دے رکھی ہے ان کو اب بغیر کسی تاخیر کے جلد سے جلد کابینہ کی تکمیل کا مرحلہ طے کرنا چاہیے۔

ادھر صوبہ میں عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کی جانب سے گزشتہ ہفتہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف بھر پور احتجاج کیا گیا، اس معاملہ میں اے این پی جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سے یقیناً ایک قدم آگے رہی کیونکہ اس نے تمام ضلعی صدر مقامات پر احتجاجی مظاہروں کی کال دی ہوئی تھی اور اس کال پر لبیک کہتے ہوئے اے این پی کے ہزاروں کارکن اور رہنما سڑکوں پر نکل آئے تھے، گویا اے این پی نے ایک طریقہ سے اپنی سٹریٹ پاور کو جانچنے کیلئے صحیح موقعہ کا انتخاب کیا اور یہی وجہ ہے کہ صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کامیاب مظاہروں کے انعقاد پر تمام کارکنوں اور پارٹی رہنماؤں کو مبارک باد دیتے ہوئے انہیں اگلے بلدیاتی اور عام انتخابا ت کیلئے تیار رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

اسی طرح جمعیت علمائے اسلام نے بھی ڈویژنل صدر مقامات پر بڑے احتجاجی مظاہرے کئے تاہم جے یو آئی صوبہ میں اپنی عوامی قوت کا مظاہرہ 15اکتوبر کو پشاور میں مفتی محمود کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر کرنے والی ہے جس کی تیاریوں کے سلسلے میں صوبائی قیادت نے پورے صوبہ کا دورہ شروع کیا ہوا ہے، جے یو آئی بھی پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ( پی ڈی ایم) سے ہٹ کر اپنی سٹریٹ پاور کو بچائے رکھنے کیلئے کوشا ں ہے کیونکہ جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو اے این پی اور پیپلز پارٹی کے نکلنے کے بعد ویسے بھی اس اتحاد میں پہلے والا دم خم دکھائی نہیں دے رہا ہے اور جہاں تک خیبر پختونحوا کا تعلق ہے یہاں سٹریٹ پاور کے لحاظ سے جے یو آئی اور اے این پی ہی اپوزیشن کی مضبوط جماعتیں دکھائی دیتی ہیں۔

مسلم لیگ ن کی پوزیشن اس لحاظ سے کافی کمزور ہے ،حالیہ کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں بھی ن لیگ صرف ہزارہ ڈویژن تک ہی دکھائی دی جبکہ پشاور میں تو اس کے امیدواروں کی ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں، اسلئے اب جے یو آئی اپنے کارکنوں کو سولو فلائٹ کیلئے بھی تیارکرنا چاہتی ہے ، ادھر پیپلز پارٹی کی نئی صوبائی قیادت تاحال مبارک بادیں وصول کرنے سے فارغ نہیں ہورہی ہے وگرنہ وہ بھی مہنگائی کے معاملہ پر صوبہ گیراحتجاج کی کال ضرور دیتی، مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلسل سکڑتی جارہی ہے۔

چنانچہ پیپلز پارٹی کی نئی قیادت کو اس معاملہ کا جائزہ لینے کیلئے سنجیدہ بنیادوں پر بیٹھ کر غور کرنا ہوگا تاکہ آنیوالے بلدیاتی اور عام انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابی کو یقینی بنایا جاسکے، جہاں تک قومی وطن پارٹی کا تعلق ہے تو اس مرتبہ منتخب ایوانوں سے باہر رہنے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اپنا سیاسی وجود کھو دیں گے اور یقینی طور پر ان کی جماعت اور کارکن انتہائی مایوسی کا شکار بھی تھےلیکن ایسا نہیں ہوسکا۔