کچے گھر تھے اور جھونپڑیاں...

October 06, 2021

قیام پاکستان کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرتیں ہوئیں، لوگوں کی کثیر تعداد کا رخ شہر کراچی کی طرف ہوا ، ان میں ہر زبان کے بولنے والے شامل تھے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں انہوں نے اپنی جھگیاں اور کچے مکانات بناکر رہائش اختیار کی۔ اس دوران کچھ نئی بستیوں کا قیام بھی عمل میں آیا ۔ کراچی ایئر پورٹ کے قریب جنگل اور بیاباں تھا۔

ایک طرف انگریزوں کا بنایا ہوا ایک قدیم ریلوے اسٹیشن ڈرگ روڈ اور دوسری جانب ملیر ندی تھی جو اب بھی ہے ، کچھ لوگ یہاں آباد ہوگئے اور اس کا نام ریلوے ڈرگ کالونی رکھ دیا ۔ 1950سے یہ آبادی بڑھتی رہی ،کچے مکانات اور جھگیاں آہستہ آہستہ پکے مکانات کی صورت اختیار کرتے گئے ۔ یہاں پر ایک قدیم گرجا گھر اب تک قائم ہے۔ ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ایک قدیم پارسیوں کا مرگھٹ بھی تھا ،جس پر سکیڑوں گدھ اور چیلیں منڈلاتے رہتے تھے ، آہستہ آہستہ وہاں کے لوگوں کی کوششوں سے اس علاقے کا نظام بہتر ہونا شروع ہوا۔ بجلی کا تصور 1965 کے بعد ممکن ہو،ا س سے قبل لال ٹینوں پر گزرا تھا۔

1960 میں ڈرگ کالونی نمبر ۳ میں کراچی شہر کی نمائندہ خواتین نے’ ہاجرہ آباد ‘کالونی کے نام سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا ،جس کا افتتاح اس وقت کے کمشنر کراچی سید دربار علی شاہ نے کیا تھا، جبکہ تکمیل پر محترمہ فاطمہ جناح نے مکینوں کو چابیاں تقسیم کیں۔ 80 گز کے یہ مکانات اس وقت 3ہزار روپے میں دیئے گئے، جس کی قسطوں میں وصولی کی گئی تھی، تقریباً 400 مکانات پر مشتمل ایک صاف ستھری آبادی وجود میں آئی ، یہاں ایک کمیونٹی سینٹر کا قیام بھی عمل میں آیا ، جہاں عموماََ شادی بیاہ اور دیگر تقاریب ہوتی تھیں،بعد میں یہاں سلا ئی کڑھائی کا اسکول قائم ہوگیا۔

اس کا نام ایک معروف خاتون بیگم قیوم کے نام پر رکھا گیا ۔ دیکھتے دیکھتے اور آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ڈرگ کالونی نمبر ۱ کی مین سڑک ،بازار کی صورت اختیار کرگئی ، یہاں سب سے قدیم بازار، سبزی گلی کے نام سے معروف ہے ، اسی بازار میں معروف ہوٹل ’’چنو دادا ‘‘ کا تھا، جہاں دودھ ملائی کی چائے شیشے کے گلاس میں 15 پیسہ میں ملتی تھی، یہاں پر دوپہر سے لےکر رات گئے تک تاش ، لوڈو، کیرم کھیلنے والوں کا رش رہتا تھا۔

بھوپالیوں کی’’ محفلِ چار بیت‘‘ اور ’’گوٹ ـ‘‘ کی پارٹیوں نے، چنو دادا کے ہوٹل سے شہرت پائی۔ یہاں بازار ایسوسی ایشن کا قیام بھی عمل آیا،جس میں پیش پیش نام، نسیم جلالی ، شیخ حسام الدین چورٹ وغیرہ شامل تھے۔ یہ ایسوسی ایشن آج بھی قائم ہے ۔ گورنمنٹ ڈسپنسری کا قیام 1964 میں عمل میں آیا جو ڈرگ کالونی نمبر ۱ میں قائم ہوئی ،اسی کے قریب ، ڈرگ کالونی کی ممتاز شخصیت سعید وارثی نے’’ مجلس سماجی کارکنان‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی ۔ 1968 میں ڈرگ کالونی نمبر ۱ میں اپنا ایک وسیع و عریض دفتر بنایا اور وہاں شہری دفاع ، ڈسپنسری ، ہیلتھ کلب اور دیگر شعبہ جات کے کمرے بنا ئے۔ سماجی ادبی اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد یہاں آتےتھے ۔ سعید وارثی کا ڈرگ کالونی کے ادبی اور سماجی ماحول کو بدلنے میں بڑا نام ہے۔

سیاسی ماحول میں بہت مدوجزر اس علاقے میں آئے۔ 1976 کے بعد قیادت نو آموز نوجوانوں کے حصے میں آگئی ، اس دوران منشیات اسلحہ کلچر فروغ پانا شروع ہوا ، جو لوگ ہجرت کر چکے تھے اور جو بزرگ باقی تھے، انہوں نے اسے سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر یہ معاملہ سنبھل نہ پایا تو 1989کے بعد بہت سے لوگ اس علاقے سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئے ۔

شاہ فیصل کالونی میں ہماری بھی رہائش تھی، یہیں کے اسکول ، کالج میں تعلیم حاصل کی۔ سچ ہی تو ہے کہ اولڈ از گولڈ ، سو ہم اپنے اسکول کالج کی دوستوں کو ہمیشہ دل و جان سے یاد کرتے ہیں ، یہ مخلص بے مثال اور بے لوث دوستیاں، جنہوں نے ہر موقع پر دوستی نبھائی ۔ ان دوستیوں نےسعدی گورنمنٹ گرلز لوئر سیکنڈری اسکول ، گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ۲ اور خورشید گورنمنٹ گرلز کالج شاہ فیصل کالونی میں جنم لیا اور پروان چڑھیں۔ اساتذہ ، پرنسپل اور ہیڈ مسٹریس کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے ہر موقع پہ حوصلہ افزائی کی۔

شاہ فیصل کالونی میں بے شمار ادیب ، شاعر ، صحافی ، سیاست دان، کھلاڑی اور سماجی کارکنان رہتے تھے ، جنہوں نے نہ صرف کالونی میں قیام کے دوران بلکہ کالونی سے نکل کر کراچی میں اپنی شناخت بنائی ،بعض نے تو شہر قائد سے نکل ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر بھی شہرت حاصل کی ،ان میں حمایت علی شاعر، سرشار صدیقی ، منظر ایوبی ، سرور باہ بنکوی، جمیل الدین عالی ، راشد نور، خالد معین ، اطہر نفیس ، نور جہاں نوری ، اوج کمال ، شعیب ناصر، قدوس صہبائی وغیرہ بہت سے نام شامل ہیں۔

کھیلوں کی دنیا کے معروف کھلاڑی سمیع اللہ ، کلیم اللہ شہناز شیخ کی رہائش بھی شاہ فیصل کالونی میں ہی تھی ۔ معروف ادبی ، سماجی ، ثقافتی شخصیت ، ریڈیو پاکستان کراچی کے سابق اسٹیشن ڈائریکٹر اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے آئی کو ن جنہیں ’’کنگ میکر‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یاور مہدی کا تعلق بھی شاہ فیصل کالونی سے ہے ، عمر عزیز کا ایک بڑی حصہ انہوں نے اسی کالونی میں گذارا ۔ کالونی میں داخل ہوتے ہی سامنے خوبصورت اور صاف ستھری تمام طبی سہولتوں سے آراستہ فوجی فاؤنڈیشن اسپتال یعنی شوکت عمراسپتال 24 گھنٹے خدمات انجام دے رہا ہے۔

ڈرگ کالونی کے معروف سماجی کارکن محمد علی دہلی سوئٹس کے نام سے اپنا کاروبار برسوں سے چلا رہے ہیں ، ۔ شاہ فیصل کالونی کے سینماؤں میں شمع، شبنم ، سنگم، امپیریل سینما تھے، جہاں ایک زمانے میں بہت رش رہتا تھا، مگر فلموں کے شائقین کم ہوئے تو شمع سینما ختم ہوکر شمع شاپنگ سینٹر بن گیا، باقی سینما ہال بھی ختم ہوگئے ۔ تاریخ کی خوبصورت مساجد اور امام بارگاہیں یہاں کے مکینوں کے لئے ایک تحفہ ہیں۔ شاہ فیصل کالونی کے گیٹ میں داخل ہوتے ہی ریلوے لائن کے ساتھ ایک بڑا قبرستان اور عید گاہ میدا ن ہے جہاں عید اور بقرعید کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔

اس کے علاوہ سارا سال اسپورٹس کے متوالوں کے لئے یہ بہت عمدہ جگہ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں لائبریوں کا بڑا شوق تھا ، بچوں کی کہانیاں، کتابیں اور ناول با آسانی کرائے پہ دستیاب ہوتے تھے ، ابن صفی ، عمران سیریز، مجھ پہ کیا گزری ، عالی پر کیا گزری ، ٹارزن کی واپسی ، بہادر علی اور بہت سے ناولز یہیں سے لے کر پڑھے ۔ کالونی کی ’’شمع لائبریری‘‘ نے اسکول و کالج میں اے آر خاتون ، رضیہ بٹ سلمیٰ کنول ، بشریٰ رحمن کے ناولوں کے علاوہ بچوں اور جاسوسی ڈائجسٹوں کی پیاس بجھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ نونہال ، تعلیم و تربیت ، بچوں کی دنیا ، آنکھ مچولی سے روشناس کرایا اور مطالعہ کے شوق کو پورا کرنے میں مدد دی ۔

وقت گزرنے کے ساتھ پہلے جیسا نہیں رہا ، پرانے مکانات جدید طرز تعمیر میں ڈھل گئے۔ وہ لوگ جو معاشی طور پر خوشحال ہوئے انہوں نے شاہ فیصل کالونی سے رہائش ترک کر کے پوش علاقوں میں سکونت اختیار کرلی ۔