بیرو کریسی میں تبادلوں کا سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟

October 07, 2021

سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا اسی وجہ سے ہمارے ملک کی سیاست میں موروثی کردار جنم لیتے ہیں اور وہ بچپن سے ان رموز کوسیکھ رہے ہوتے ہیں۔ایک شاعر نے اس کی خوب عکاسی کی ہے کہسمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی کبھی چہرہ نہیں ملتا کبھی درپن نہیں ملتا ہمارے ملک کی مقبول سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان مسلم لیگ ن بھی ہے،اس کی وجہ شہرت میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی شخصیت ہے۔

تاہم میاں نواز شریف علیل ہونے کی وجہ سے ا س وقت لندن میں ہیں اور ملک میں شہباز شریف ان کے بیانیئے کو آگے بڑھارہے ہیں، دوسری طرف میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی ہے۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی زیرک ہوتی جارہی ہیں لیکن پارٹی کی قیادت کا بوجھ ان پرمکمل طور پر ڈالناپارٹی کے مفاد میں اس وجہ سے نہیں ہے کیونکہ ان کا مقابلہ انتہائی زیرک سیاست دانوں سے ہے اسی وجہ سے شہباز شریف کی مفاہمانہ پالیسی کام دکھاتی ہے۔سیاسی طوفان گزرچکا بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے یا پھر اس میں ٹھہراو آ چکا ہے۔

فوجی قیادت سے دشمنی ختم ہوچکی اور اب دارالحکومت پر چڑھائی کرنے کی باتیں بھی نہیں کی جارہی ہیں۔ اب معمول کی سیاست شروع ہوچکی ہے اور آئندہ انتخابات کو ہدف بنالیا گیا ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ تنظیم سازی بھی کی جارہی ہے اور حمزہ شہباز شریف اس وقت جنوبی پنجاب کے دورے پر ہیں اورسیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہیں۔

وہ پارٹی کومضبوط کرنے کے لئے جنوبی پنجاب کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اس وجہ سے پارٹی کارکنان کا بھی حوصلہ بلند ہوا ہے اورتنظیم سازی کی ضرورت کومحسوس کیا جارہا ہے۔ پارٹی کی حکمت عملی کا حتمی فیصلہ لندن میں موجود مسلم لیگ ن کے بانی میاں نواز شریف ہی کرتے ہیں مگرقابل ذکر بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال اور پارٹی کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ان کے لئے مریم اور شہباز میں سے کسی کو آگے لانے کے لئے فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے بلکہ جوئے شیر لانا کے مترادف ہے اسی وجہ سے میاں نواز شریف پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے کہ وہ پارٹی کے لیے کسی ایک رخ کو متعین کر دیں تاکہ یکسو ہو کر انتخابات سے قبل پارٹی اپنا لائحہ عمل بنا سکے۔مسلم لیگ ن کے بڑوں اور پالیسی سازوں کے لیے یہ وہ لمحہ ہے جب وہ سنجیدگی کے ساتھ سوچیں کہ ان کی جماعت کی سمت کیا ہے؟

شہباز شریف جس انداز کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، مریم نواز اسے غلط سمجھتی ہیں۔ فیصلہ کن قوت نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، مگر وہ باہر بیٹھے ہونے کی وجہ سے کئی معاملات میں اتنے موثر ثابت نہیں ہو پا رہے۔ یہ ’’جنگ‘‘ وراثتی جنگ ہے جو سیاسی جماعتوں کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔ پیپلزپارٹی میں بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری صاحب نہ آتے یا بلاول کے ساتھ زبردستی بھٹو نہ لگایا جاتا تو پیپلزپارٹی کی حالت زیادہ بہتر ہونی تھی۔مریم نواز کی اگر بات کی جائےتو بلاشبہ انہیں شریف خاندان کی سیاسی میراث کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے جماعت کو ایک نیا تحرک تو دیا لیکن ان میں سیاسی بلوغت کی کمی پائی جاتی ہے۔

یہ نواز شریف اور ان کی بیٹی کی بہت بڑی غلط فہمی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سخت بیانیہ اختیار کرکے موجودہ نظام کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک شروع کرسکیں گے۔جماعت کے اندر کئی لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ نظام کو چھیڑے بغیر پنجاب میں باآسانی اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت میں واپس آسکتے ہیں۔

تاہم جماعت میں اندرونی رسہ کشی کے باوجود جماعت کے ٹوٹنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔نواز شریف اور ان کی بیٹی ووٹ کے حصول کے لیے ضروری ہیں لیکن شہباز شریف کی مفاہمانہ حکمت عملی اقتدار حاصل کرنے کے لیے معاون ہوگی۔یہ بات واضح ہے کہ سیاسی جماعتیں ذہنی طور پر عام انتخابات کے لیے تیار ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت کی پورے ملک اور خصوصی طور پر پنجاب میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ ن اپنی کامیابی کے حوالے سے پراعتماد ہے۔پنجاب میں اس وقت اگر بیوروکریسی کی صورتحال کی بات کی جائے تو کرسی وہی رہتی ہے لیکن چہرے بدلتے جارہے ہیں، تاہم چہرے بدلنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ عوامی خدمت کے دعوے صرف دعوے ہی ہیں اورمسائل جوں کے توں۔ اس حوالے سے یہ بات قابل زکر ہے کہ گورننس کو بہتر کرنے کے لیے پورا زور بیورو کریسی کے تبادلوں پر لگایا جا رہا ہے۔ جس سے بیورو کریسی میں ہیجان کی کیفیت ہے اور ہر کوئی تبادلے کے دباو میں ہے۔ آخر پنجاب میں کب تک تبادلے تبادلے کھیلا جائے۔

اصل میں بیڈ گورننس کے زمہ داروں کی باز پرس کیوں نہیں کی جاتی۔ سیاسی صورتحال کے ساتھ ساتھ اگر تعلیمی کارکردگی کی بات کی جائے تو عرض یہ ہے جناب کہ اس وقت میٹرک( نہم و دہم) انٹرمیڈیٹ(پارٹ ون اور ٹو) کے نتائج التوا کاشکار ہیں اور صرف اختیاری مضامین کے نتائج کی بنیاد پر پرموشن پالیسی نے پورے نظام کو دائو پر لگا دیا گیا ہے۔جو متنازعہ پرموشن پالیسی حکومت نے اپنائی ہے اس کے لئے کابینہ سے قانون اور قاعدے میں ترمیم ضروری ہے اور گورننس کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس کابینہ میں لایا جا سکا اس وجہ سے نتائج التواکاشکار ہیں اورطلبا کا مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔

جیسے ہی نتائج کا اعلان ہو گا تو اس سے عجیب وغریب پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ تاہم اس میں کسی حد تک قصور شعبہ تعلیم میں خالی پوسٹوں کابھی ہے،اگربروقت میرٹ پر فیصلہ کرلیا جاتا اور ایڈہاک ازم کو نہ دیکھا جاتا تو ان کے کاندھوں پر بھی ذمہ داری ڈالی جاتی لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔