اُستاد بادشاہ نہیں ہوتا، مگر بادشاہ بنا دیتا ہے

October 16, 2021

کسی نے سچ کہا ہے کہ استاد بادشاہ نہیں ہوتا ،مگر بادشاہ بنادیتا ہے۔انگریزی مقولہ ہے کہ، استاد وہ مینارہ ٔ نور ہے جو بچے کے راستے کو روشن کرتا ہے۔سکندر اعظم کا قول ہے ،’’میرے والدین نے مجھے زمین پر اتارا اور میرے استاد نے مجھے آسمان کی بلندی تک پہنچا دیا‘‘۔ہر کامیاب انسان کی کامیابی کے پیچھے ایک استاد کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنے شاگرد کو کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ نوبل انعام یافتہ سائنسداں عبدالسلام نے اپنا نوبل انعام اپنے استاد کے قدموں میں رکھ کر کہا تھا کہ، ’’کمرۂ جماعت میں اگر آپ نے میری ہمت افزائی کے طور پر ایک روپیہ نہ دیا ہوتا تو آج میں نوبل انعام کا حقدار نہ بنتا‘‘۔

معروف دانشور اشفاق احمد مرحوم نے اپنا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ، یورپ میں مجھ سے غلطی سے قانون ٹوٹا تو مجھےعدالت بلایا گیا، مگر میں وہاں دیر سے پہنچا اور بتایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور یونیورسٹی کی مصروفیت کی وجہ سے پہنچ نہیں سکے، جج نے استاد کا لفظ سنتے ہی’’ Teacher in the Court ‘‘ کہا توسارا مجمع کھڑا ہو گیا۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت ساری نعمتوں کے ساتھ ایسے لوگوں اور اساتذہ سے بھی نوازا ہے ،جن کے کارنامے رہتی دنیا تک یاد رکھے جائیں گے،ان استادوں میں ایک استاد پروفیسر عبدالاحد خان شیروانی بھی شامل ہیں ، کون سا ایسا شعبہ ہے ، جس میں ان کا شاگرد نہیں ہے اور وہ اعلیٰ مقام تک نہ پہنچے ہوں۔ آئیے ہم آپ کوپروفیسر عبدالاحد خان شیروانی کے بارے میں مختصراََ بتاتے ہیں۔

20 جنوری 1934 کو انڈیا کے شہر کلیانہ میں پیدا ہوئے۔ 1965 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ سندھ یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرزاور ایم ایس سی کیمسٹری کی ڈگری حاصل کی۔ 1965 میں کیڈٹ کالج پٹارو میں کیمسٹری کے لیکچرار کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1975 میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔

ان کے بعض شاگردوں میں کچھ قابل ذکر اور مشہور ناموں میں سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری، سابق وزیر اعلیٰ سندھ لیاقت جتوئی، سابق وزیر اعلیٰ سندھ ارباب غلام رحیم سابقہ کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایس پی شاہد، سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، سابقہ آئی جی جیل خانہ جات غلام قادر تھیبو، سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن ایئر وائس مارشل سرفراز، ممبر سندھ نیپرا رفیق احمد شیخ، وائس چانسلر جے ایس ایم یو ڈاکٹر امجد سراج میمن، ایس ایس پی فارن افیئر عبدالقیوم پتافی، ڈپٹی کمشنر ندیم میمن، چیف انجینئر واٹربورڈ سکندر علی زرداری اور ظفر پلیجو، سابقہ ایم ڈی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کاشف گلزار شیخ اور موجودہ ایم ڈی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ زبیر چنا، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر سیف الرحمن میں شامل ہیں۔ پاکستان نیوی کے کموڈور عابد سلیم صاحب جو اسی تدرسی ادارے سے پڑھ کر فارغ ہوئے تھے پاکستان نیول ہیڈ کوارٹر کی طرف سے انہیں کیڈٹ کالج پٹارو کا پرنسپل بنا دیا گیا۔

یہ تدریسی ادارہ کیڈٹ کالج پٹارو پاکستان نیوی کے ماتحت ہیں۔ لہذا نیول ہیڈ کواٹر سے ہی کموڈور رینک کا آفیسر پرنسپل بناکر بھیجا جاتاہے۔ پروفیسر عبدالاحد خان شیروانی کے دوسرے شاگرد کموڈور اسلم رانا بھی کیڈٹ کالج پٹارو کے پرنسپل بنے اور اس وقت موجودہ پرنسپل کیڈٹ کالج پٹارو کموڈور مشتاق بھی ان ہی کے شاگرد ہیں۔

مرحوم پروفیسر عبدالاحد خان شیروانی صاحب کو 1985 میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ اس کے بعد وہ کیڈٹ کالج پٹارو کمیسٹری کے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ بنا دئیے گئے۔ 1994 میں ان کو وائس پرنسپل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔1995 میں انہیں کالج کی طرف سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈکو دیا گیا اور کیڈٹ کالج پٹارو کا ڈائریکٹر آف سٹڈیز بھی بنا دیا گیا۔

1965 سے 1996 تک پروفیسر عبدالاحد خان شیروانی نے کیڈٹ کالج پٹارو میں ایک بہترین استاد رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 1997 میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ حج کی ادائیگی کے بعد واپس کراچی تشریف لائے تواُن کے ایک اور شاگرد غلام مرتضی نے کیڈٹ کالج مری میں ڈائریکٹر آف اسٹڈیز بننے کی درخواست کی۔ اگست 1996 سے لےکر جون 1999 تک انہوں نے کیڈٹ کالج مری میں ڈائریکٹر آف اسٹڈیز کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

بعد ازاں ان کے ایک اور شاگرد پاکستان نیوی کے کیپٹن الطاف نبی ڈار جو کیڈٹ کالج سانگھڑ سندھ کے پرنسپل تھے۔ انہوں نے شیروانی صاحب کو کیڈٹ کالج سانگھڑ سندھ کے وائس پرنسپل کی ذمہ داریاں دینے کی درخواست کی پھر جنوری 2000 سےلےکر دسمبر 2002 تک کیڈٹ کالج سانگھڑ میں وائس پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ 25 جنوری 2003 کو حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ہیں آج بھی ایسے اُستاد ہوں گے اورضرور ہوں گے۔