• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مہمانوں کو رخصت کرنے کےلئے بس اڈے پر موجود تھاکہ اچانک سیکورٹی گارڈز کو ایک باریش نوجوان سے الجھتے دیکھا۔نوجوان کی شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی،کالر اور کف کے بغیر قمیص پہن رکھی تھی،سر پر عمامہ تھا،قصہ مختصر یہ کہ حلیے اور وضع قطع سے گمان ہوتا تھا کہ اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ان دنوں چونکہ آپریشن ضرب عضب کے باعث باریش افراد کو مشکوک سمجھا جاتا ہے اسلئے مجھے لگا کہیں کسی شریف آدمی کو خواہ مخواہ ہراساں نہ کیا جا رہا ہو۔قریب جا کر پوچھا کہ معاملہ کیا ہے تو پتہ چلا موصوف بھرا ہوا سگریٹ پینا چاہتے ہیں اور سیکورٹی گارڈز کا اصرار ہے کہ مولوی صاحب ،یہ پینے کی جا نہیں۔مجھے حیرت تو ہوئی مگر ہمت کر کے مولوی صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ آپ تبلیغ دین سے وابستہ ہیں ،کیا ایک داعی کو ایسی حرکت زیب دیتی ہے؟
مولوی صاحب نے تنک کر جواب دیا:’’بائی ،وہ امارا عبادت ہے اور یہ امارا شوق ہے،اس میںکیا پریشانی ہے‘‘(بھائی ،وہ ہماری عبادت ہے اور یہ ہمارا شوق ،اس میں کیا پریشانی ہے)۔یوں تو ہمارے سماج میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اچھے برے کی تخصیص کرنا بہت دشوار ہے لیکن جن افراد کو کاروباری معاملات کےلئے انواع و اقسام کے افراد سے میل جول رکھنا پڑتا ہے وہ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ بعض اوقات جو شخص بظاہر جس قدر دیندار محسوس ہو گا ،لین دین کے اعتبار سے وہ شخص اتنا ہی ناقابل اعتبار ہو گا۔جب تقویٰ کا لبادہ اوڑھ کر دھوکہ دینے والے یہ کچھ افراد بے نقاب ہوتے ہیں تو یہ تاویل پیش کی جاتی ہے کہ نمازی مسجد سے جوتا نہیں چراتا بلکہ چورنمازی بن کر آتا ہے لہٰذا یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ مذہبی لوگ اس قماش کے ہوتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ مذہب کا سہارالیتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ جب چوروں کی تعداد نمازیوں سے بڑھ جائے تو یہ فرق کیسے کیا جائے کہ کون حقیقی اور اصلی لوگ ہیں اور سوانگ بھرنے یا لبادہ اوڑھنے والے کون ہیں؟اور اس سے بھی کہیں زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر چور مسجد میں جاتا ہے ،خطیب کا درس سنتا ہے ،رکوع و سجود کرتا ہے ،تلاوت قرآن سے اپنی سماعتوں کو معطر کرتا ہے اور اس کے باوجود اس کے دل کی دنیا نہیں بدلتی اور وہ رند کا رند ہی رہتا ہے تو پھر یہ اعتراف کرناپڑے گا کہ شاید واعظ کے الفاظ میں تاثیر نہیں ۔یہ بات تو بر حق ہے کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے مگرجب بعض پانچ وقت کے نمازی لوگوں کا حق مارتے ہیں ،بد عہدی کرتے ہیں ،دھوکہ دیتے ہیں ،ملاوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں ،جعلسازی کرتے ہیں ،ملازمت کے دوران اپنا کام ایمانداری سے نہیں کرتے اور نماز کے بہانے وقت ضائع کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی گڑ بڑ ہے ۔
ہمار ے ہاں بعض دین دار لوگ جب تسبیح گھماتے ہوئے منشیات ،اسلحہ ،اغواء برائے تاوان اور اسمگلنگ کے کاروباری معاملات طے کرتے ہیں ،جب کوئی پرہیز گار شخص شب جمعہ سے واپس آتا ہے اوربدعہدی کا مرتکب ہوتا ہے یا جب کوئی صوم و صلاۃ کا پابند شخص روزے کی حالت میں ناجائز منافع خوری میں ملوث پایا جاتا ہے تو لوگ یہ کہہ کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ د اڑھی رکھ کر ایسے کام کرتے ہوئے ،شرم نہیں آتی ۔اس پر مذکورہ شخص یا تو وہ گھسا پٹا لطیفہ سنا کربات ہنسی میں اڑا دیتا ہے کہ یہ داڑھی ہے کوئی بریک نہیں یا پھر یہ بودی دلیل دیتا ہے کہ عبادت اپنی جگہ کاروبار اپنی جگہ۔مگر سچ یہ ہے کہ زندگی ناقابل تقسیم اکائی ہے ،کوئی شخص ایک شعبہ میں بددیانت اور دوسرے شعبہ میں دیانتدار نہیں ہو سکتا۔یا تو وہ ایماندار ہوتا ہے یا پھر بے ایمان ۔کیا کہتے ہیں مفتیان کرام ،جو شخص خلق خداکو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتا ،وہ خالق کائنات سے کیسے مخلص ہو گا؟اس کی ریاضتوں ،اس کی عبادتوں ،اس کی تلاوتوں کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟
ان بیچاروں ،کا بھی کیا قصور ؟انہیں شایدبتایا ہی یہی گیا ہے کہ ڈاڑھی رکھنا سنت ہے ،مونچھیں منڈوانا سنت ہے،شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا مسنون ہے،عمامہ باندھنا یا ٹوپی پہننا افضل ہے،کالر حرام ہے،پینٹ شرٹ کافرانہ لباس ہے،قہقہہ لگا کر ہنسنا بدعت ہے۔تراویح کے بغیر روزہ قبول نہیں ہوتا۔بہت ہی کم کسی خطیب نے یہ بتایا ہوگا کہ کپڑے جیسے بھی ہوں کسی کا حق مار کر نہ بنائے گئے ہوں تو زیب تن کرنا ثواب ہے، بد قسمتی سےیہ ترغیب نہیں دی جاتی کہ ملاوٹ نہ کرو،اللہ کے رسول ﷺ نے کہا ہے جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔کسی نے یہ نہیں بتایا کہ خوش اخلاقی بھی عبادت ہے،کسی نے یہ درس نہیں دیا کہ صرف مسجد اور مدرسے میں چندہ دینا ہی ثواب نہیں ،کسی نادار،تنگدست اور حاجت مند کی مدد کرنا بھی نیکی ہے،حج اور عمرہ کی فضیلت بیان کرنے والوں کو یہ بھی لوگوں کوسمجھانا چاہئے کہ جس معاشرے میں لوگ فاقوں سےمر رہے ہوں وہاںخدمت خلق کے کاموں پر خرچ کرنا بھی ثواب ہے۔
ذکر اذکار کی فضیلت بیان ہوتی ہے،یہ بتایا جاتا ہے کہ تلاوت کا کتنا بڑا ثواب ہے،قربانی کی اہمیت پر درس ہوتا ہے ،قبر کے عذاب سے ڈرایا جاتا ہے ،آخرت سنوارنے کی نصیحت کی جاتی ہے اس کے ساتھ یہ بھی بتانا چاہئےکہ اس دنیا میں کیسے رہنا ہے ،اچھاانسان کیسے بننا ہے ،حقوق العباد کی کتنی بڑی اہمیت ہے یہ کیوں نہیں بتایا جاتا۔ہمارے ہاں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مقصد حیات بعد از موت حساب کتاب کیلئے اپنی بیلنس شیٹ متوازن رکھنا ہے۔آپ اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں ۔آپ نے ناجائز ذرائع سے دولت کمائی تو کیا ہوا ،اس میں سے کچھ دولت انسانی فلاح و بہبود کےلئے وقف کر دیں ،کوئی مسجد بنوا دیں ،کوئی لنگر چلوا دیں ،کسی دربار پر چادر یا چڑھاواچڑھا دیں ،آپ کی بیلنس شیٹ میں ثواب کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔آپ رمضان المبارک کی آمد پر سبزی ،پھل ،کھجور اور دیگر اشیاء کے نرخ تین گنا بڑھا دیتے ہیں ،دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرتے ہیں مگر مسجد میں افطاری کےلئے باقاعدگی سے پیسے بھجواتے ہیں تو جمع تفریق کر کے ثواب ہی ثواب ۔اللہ اللہ خیر صلیٰ ۔دینی تعلیمات کا مقصد تو انسانی معاشرے کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانا اور لوگوں کو ایک اچھا انسان بنانا تھا مگرہم نے خود کو ثواب کے عذاب میں مبتلاء کر کے اس معاشرے کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔لیکن جب آپ ثواب کے عذاب میں مبتلاء کرنے والے ان لوگوں کے بارے میں بات کریں گے تو اسلام دشمنی کاٹھپہ لگ جائے گا ۔یہ دلیل دی جائے گی کہ جو لوگ مذہب کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے ،وہ مذہبی افراد پر تنقید کر کے اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں ۔گویا ، ان پر تنقید مذہب پر تنقید ہے۔پیمرا پہلے ہی یہ حکمنامہ جاری کر چکا ہے کہ عدلیہ اور فوج پر تنقید نہیں کیا جا سکتی تو باقی کون بچ گئے سیاستدان تو چلو سب مل کر ان پر تنقید کرتے ہیں۔
تازہ ترین