• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وہ 1933ء میں پیدا ہوا۔ دوسری جنگ عظیم دیکھی۔ تقسیم ہند کا خون آشام منظر دیکھا۔ چین کا ثقافتی انقلاب دیکھا۔ پاکستان کے نالائق شاگردوں کو پڑھایا۔ ہر حالت میں، ہر عالم میں خاموشی کا لبادہ اوڑھے، بس شعر لکھتا رہا۔ کتاب آئی تو کبھی کسی کو تبصرہ کرنے کو نہیں کہا۔ البتہ یہ دیکھا کہ جب بھی چینی طالب علم پاکستان آئے، بے قراری سے آفتاب اقبال شمیم سے ملنے کا اظہار کیا۔ ادیبوں کے جلسے میں بہت کم گیا۔ جب گیا، ہاتھ میں ایک برائون رنگ کا لفافہ پکڑے ہوئے ہوتا ہے۔ جن کو معلوم ہے ، وہ کہتے ’’لفافے میں سے نظم نکالو اور سنائو، وہ شرماتا ہوا نظم نکال کر اپنے نرم لہجے میں سناتا، اس کی لغت بھی سب سے مختلف اور اسلوب بھی۔ اس کی نظم کو دوبارہ پڑھو تو بتاتی ہے کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے۔ کیسے ہم نے کہدیا 1965ء میں ہندوستان نے ہم پر حملہ کردیا تھا۔ کیا یہ سچ تھا ’’بھیانک آندھیاں باطن کے صحرا میں/ ذرا سی یا بہت سی روشنی کی اس رکاوٹ سے نہیں تھمتیں، جسے اس نے گیا میں اور پھر اس نے حرا میں جاکے ڈھونڈا تھا۔میں آفتاب کی کتاب میں ڈھونڈتی رہی۔ وہ دلسوز لمحے جب ہمارے بچے اغوا کرکے، خودکش بمبار بننے کیلئے ابھی بھی بھیجے جاتے ہیں۔ میں نے تلاش کیں وہ لڑکیاں جن پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے اور پھینکنے والا نہ پکڑا جاتا ہے، نہ سزا پاتا ہے۔ میں نے غیرت کے نام پر بیٹیوں کو قتل کرنے والے ان باپوں کو تلاش کیا ان مائوں کو تلاش کیا ہے جو فخریہ اس قتل کی ذمہ داری لیتے ہیں مگر یہ سب کچھ ہے۔ میمورل کی شکل میں، دھند میں لپٹا ہوا، زنداں ہے جس میں روشنی نہیں آتی کہ بدشکل منظروں کو دیکھ سکے۔
’’وہ بڑا شہر اتنا بڑا شہر کیوں دیکھتے دیکھتے منہدم ہوگیا ہے، اور ٹکڑوں میں بے ضرب ہی منقسم ہوگیا‘‘
میرے سامنے شوال کا علاقہ آن کر کھڑا ہوگیا۔ لوگ مر رہے ہیں۔ فوجی بھی ہیں اور دہشت گرد بھی، مگر سب انسان ہیں۔ پھر میرے سامنے ولی محمد نامی شخص جو پندرہ دفعہ پاکستان تجارت کی غرض سے آ چکا تھا۔ کھڑا ہوکر پوچھتا ہے آفتاب اقبال شمیم سے کہ تم نے تو کہا تھا ’’پھر مجھے ماں نے پلو میں باندھی ہوئی وقت کی ریزگاری کے دوچار سکے تھما کر، عجب پیار سے تھپتھپاتے ہوئے یوں کہا جائو نا، جائو عمروں کے میلے سے ہو آئو نا،۔ وہ نوشکی میں عمروں کے میلے میں خاک ہوگیا۔
اسی موضوع کو تنویر انجم ایک اور انداز میں بیان کرتی ہے۔ ’’سناتے رہو سارے قصے اپنی اذیت کے، کہ تمہارے پاس اذیت کے سوا کوئی سرمایہ نہیں۔‘‘ ہم سب کے پاس واقعی اذیت کے فسانے کی جگہ کوئی سرمایہ نہیں ہے۔ تنویر انجم، دنیا کے سارے منظر دیکھنے کے بعد لکھتی ہے، سات سالہ ایاز کی صورتحال، امریکہ اور یورپ میں مقبول پاکستانی قالین تیار کرنے والا گیارہ سالہ اعجاز سے اور اولمپک میں استعمال ہونے والے فٹ بالوں سے بھی بہتر ہے، جنہیں انسانی حقوق کے کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی خاص عنایت کے باوجود اپنی زندگی کے مقابلے میں اپنا روزگار زیادہ عزیز ہے۔‘‘
چاہے آفتاب اقبال شمیم ہو کہ تنویر انجم، احساس کی دہلیز پر ایک ہیں۔ تنویر ایک عورت ہے۔ عمر کی اس منزل میں ہے کہ جہاں ’’پاور آف اٹارنی کی باتیں، بچے کرتے ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ عورت کو عزت دینا، وہ خود سے ہی پوچھتی ہے ’’آپ شاعرہ کیوں بنیں، الفاظ اور تخیل کا جادو، دکھانے کیلئے‘‘ پھر ایک اور مصرعہ دیتی ہے ’’فرسودہ رواجوں سے بھری ذہنیت اور زندگی سے بچنے کیلئے‘‘۔ آگے بڑھ کر کہتی ہے ’’دنیا بھر کے شاعروں کو اپنے اطراف معتبر بنانے کیلئے۔‘‘ شاعرہ کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ وہ اپنے نرم لہجے میں بیان کئے جاتی ہے۔ بہت سی نظمیں تنویر کہانی کے انداز میں لکھتی ہے جیسے ’’رومانہ کے خوابوں کا خوبرو شہزادہ‘‘ یا پھر زندگی جنگل میں پھنس جانے والی شاعرہ، تلاش کرتی ہے ایسا انجان کھلاڑی جو سو لیٹر، اس کے ساتھ کمپیوٹر پر کھیلتا ہے چونکہ وہ اجنبی ہے، پاکستانی نہیں، اس لئے یہ نہیں کہتا ’’کیا مجھ سے شادی کروگی۔‘‘ یہ عام فقرہ ہے جو کسی بھی کمزور لمحے میں عورت سے کہا جاسکتا ہے۔ بالکل اس طرح نابالغ بچوں سے محنت کروانے کیلئے،عوضانے میں پانچ روپے دےدئیے جاتے ہیں، وہ ماں کو دیکر خوش ہوتا ہے۔ تنویر اس پر افسوس کرنے کے ساتھ پاکستان کے غیر ملکی قرضوں کا اندازہ لگاتے ہوئے، وزیر خزانہ کی تقریر میں بچتوں کے منافع کو کم کرنے کو خوش آئند کہتے ہیں۔ وہ جل بھن اٹھتی ہے اس جھوٹ پر جو دالوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ہماری صحت کیلئے مفید کہا جارہا ہے۔ پھر بھی حوصلہ دیکھو کہ کہتی ہے ’’ہم خود کو زندہ ثابت نہیں ہونے دیں گے۔ یہ حوصلہ ایک شاعرہ ہی میں ہوسکتا ہے، ویسے تو آفتاب اقبال شمیم بھی جا بجا یاد دلاتا ہے۔ ’’ عمر سرائے خالی ہے یا پھر ‘‘ مٹی سے وابستہ یادیں سارے رشتے چھوڑ کے ہجرت گیر ہوئے ’’اور تنویر تصویر کھینچتی ہے‘‘ بس نظر میں رہ جاتا ہے، میرے بچے کے جوتے کا کھلا ہوا تسمہ‘‘ یہ نئے نام کی محبت مجھ سے بہت سے سوال کرتی ہے اور نادر یافتہ میں خوابوں کے جواب نہیں ملتے۔
تازہ ترین