• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانوی عوام نے جمعرات کے ریفرنڈم میں عام اندازوں کے برعکس یورپی یونین کی اٹھائیس رکنی تنظیم سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دے کر نہ صرف براعظم یورپ بلکہ پوری دنیا میں ہلچل پیدا کردی ہے ۔ یورپی یونین کو پچھلی چار دہائیوں سے قومیت کی تنگ سوچ سے نکل کر اجتماعیت کی وسعت کی جانب پیش قدمی کی ایک قابل تقلید مثال تصور کیا جارہا تھا۔دنیا کے مختلف خطوں میں ایسی ہی علاقائی تنظیموں کے قیام کی جانب فکری اور عملی پیش رفت جاری تھی۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس کے نتیجے میں بالآخر تمام دنیا کے لوگ ایک عالمی انسانی معاشرے کے رکن کی حیثیت سے برابر کے حقوق کے حامل قرار پائیں گے۔ تاہم یورپی یونین کے اہم ترین رکن کا مقام رکھنے والے ملک کی اس تنظیم سے علیحدگی کے فیصلے نے ان خوشگوار امکانات کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔ یورپی یونین کے بڑے رکن کی چالیس سال سے زیادہ مدت کے بعد اس سے یوں غیرمتوقع علیحدگی سے خود برطانیہ، یورپ اور پوری دنیا کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ، دنیا بھر میں مبصرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اس فیصلے کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے یونین کے دوسرے ممبروں کو درپیش صورت حال پر غور و خوض کے لئے مدعو کرلیا ہے۔یورپی یونین کے کئی دوسرے رکن ملکوں میں بھی ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جارہا ہے جس کی بناء پراس تنظیم کے ٹوٹ جانے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ اسکاٹ لینڈ سمیت خود برطانیہ کے جو علاقے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حامی ہیں ان میں برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک کے زور پکڑنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں جس کی بناء پر مبصرین خود برطانیہ کی تقسیم کے خدشات ظاہر کررہے ہیں ۔پوری دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں پر اس واقعے کے فوری طور پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ، برطانوی پونڈ اکتیس سال پہلے کی سطح تک گرگیا ہے جبکہ عالمی سردبازاری کے خدشات بھی ہیں۔یورپی یونین سے علیحدگی کی تحریک کی قیادت یوکے آئی پی نامی جماعت اور دائیں بازو کی کنزرویٹو پارٹی کے سخت گیر عناصر کی جانب سے کی گئی۔ برطانوی عوام کی اکثریت کو جن اسباب نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں رائے دینے پر آمادہ کیا ان میں مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ سے تارکین وطن کے بڑے پیمانے پر آمد جس کی وجہ سے برطانوی شہریوں کے لئے روزگار کے مواقع کم ہوتے جارہے ہیں، نیز یورپی یونین کی بیوروکریسی پر اٹھنے والے بھاری اخراجات اور فلاحی ریاست کی حیثیت سے ذمے داریوں کی تکمیل میں مشکلات وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم بعض عالمی مبصرین برطانیہ کے اس فیصلے کو انسانی برادری کے کشادہ دلی اور اتحاد و یکجہتی کی منزلوں کی جانب سے پیش رفت سے مراجعت قرار دے رہے ہیں ، ان کے بقول اس فیصلے سے اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں عالم گیریت کی جانب بڑھتی دنیا کے بیسویں صدی کی تنگ نظر قومی ریاستوں کی جانب واپسی کے سفر کا آغاز ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈیوڈ کیمرون حکومت نے یورپی یونین میں برطانیہ کے شامل رہنے یا نہ رہنے کے موضوع پر ریفرنڈم کرانے کا قدم اس سوچ کے ساتھ اٹھایا تھا کہ اس طرح یونین میں شامل رہنے کے مخالف عناصر کی مہم جوئی کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن یہ تدبیر الٹی پڑگئی۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کو بین الاقوامی معاملات میں اپنے کردار کی ادائیگی کی مصروفیت میںاپنے لوگوں کے حقیقی مسائل کو نظر انداز نہیں کرنا۔ یورپی یونین کے ساتھ ہزاروں صفحات پر مشتمل نوع بنوع معاہدوں میں بندھے برطانیہ کی اس سے علیحدگی کے عمل کے بنیادی تقاضوں کی تکمیل کے لئے بھی کم از کم دوسال درکار ہوں گے جبکہ مکمل علیحدگی میں ماہرین کے مطابق کم و بیش دس سال لگیں گے۔ برطانیہ کی نئی قیادت کی جانب سے علیحدگی کے اس عمل کو یورپ اور عالمی انسانی برادری کے اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکمل کیا جانا چاہئے نیز عالمی معیشت کوا س فیصلے کے منفی اثرات سے بچانے کے لئے تمام ممکنہ تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں اور تارکین وطن کے مسائل کا بھی مستقل، باعزت اور قابل عمل حل تلاش کیا جانا چاہے۔
تازہ ترین