• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 22 جون کی صبح بہت سہانی تھی۔ سورج قابل برداشت تپش کے ساتھ چمک رہا تھا۔ بالکنی میں جاکر چائے کے ساتھ پہلے سگریٹ کے پہلے کش کا لطف ہی اور تھا۔ بچے برقی رفتار سے تیار ہو رہے تھے کہ انہیں دن کا آغاز ایمریٹس چیئرلفٹ سے کرنا جس سے پہلے انہیں ایمریٹس کے جہاز کا انجن کا کاک پٹ کھلا دیکھنا تھا۔ یہ ایک حیران کن تجربہ تھا جسے مجھ جیسا جاہل ٹھیک سے بیان بھی نہیں کر سکتا۔ کمال یہ کہ انجن رولز رائس کے تھے۔ مسلمان دنیا میں اگر کہیں کچھ ’’اچھا ‘‘کر بھی رہے ہیں تو دولت ضرور ان کی ہے، پیچھے علم، عقل، تجربہ اور ٹیکنالوجی صرف اہل مغرب کی ہے۔ یہاں میں بھول گیا کہ عربوں کی دولت کے پیچھے بھی مغرب ہی ہے ورنہ ان بیچاروں کو کیا خبر تھی کہ پٹرول کیا چیز ہے اور نکالا کیسے جاتا ہے۔ ان کے لئے تو تیل ’’گارے‘‘ اور ’’کیچڑ‘‘ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ قطری اور دیگر عرب برادران یہاں اربوں بلکہ کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ نائٹ کلبوں سے لے کر مہنگی ترین فٹ بال کلبوں اور کیسینوز تک برادر اسلامی ملکوں کی ملکیت ہیں ’’کالونی‘‘ جیسا کیسینولیتی شہرہ آفاق جوا خانہ بھی برادران ہی کی ملکیت ہے۔ شہزادی ڈیانا فیم ڈوڈی الفائد کے والد کا’’ ہیرڈز‘‘ بھی اب ہمارے ہی کسی عرب برادر کی ملکیت ہے۔ کیا یہ کچھ عجیب نہیں لگتا کہ غریب’’ برادر پاکستان‘‘ کو سرمایہ کاری کے لئے مناسب نہیں سمجھا جاتا کہ وہ جانتے ہیں کہ ’’برادر پاکستان‘‘ کی رولنگ ایلیٹ بدعنوان اور خائن ہے، سسٹم بری طرح کرپٹ اور گلا سڑا ہے، معیاری لیبر بھی خال خال جبکہ دوسری طرف تحفظ، قانون، اصول، ضابطہ اور ویسے بھی آفاقی و ازلی و ابدی حقیقت یہ ہے کہ ’’خاناں دے خان پروہنے‘‘ جن ملکوں کے حکمران خود اپنا حلال حرام اپنے ملک میں انویسٹ نہیں کرتے، ادھر کوئی اور کیوں سرمایہ لگائے گا؟ صدقہ، خیرات، بھیک، بخشیش اور بات ہے۔ سچ یہ کہ ’’برادر شرادر‘‘کچھ نہیں ہوتا، جوڑ برابر کا ہو تو بات بنتی ہے۔۔۔ بہرحال میں نے تو چیئرلفٹ کیلئے معذرت کر لی۔ بچے اس جوائے رائیڈ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان چیئرلفٹس میں صرف ٹورسٹ ہی نہیں ہوتے، بہت سے لوگوں کیلئے یہ آمدو رفت کا اک ایسا ذریعہ بھی ہے جس سے خاصا ٹائم بچایا جا سکتا ہے۔ ’’اوٹو‘‘ اورچیئرلفٹ سے تو میں دور ہی رہا لیکن دریائے ٹیمس میں فیری کا سفر میرے لئے بھی ہمیشہ سے پرکشش رہا ہے سو میں اور افضل بھی بچوں کے ہمراہ ہو لئے۔ دریائے نیل، دریائے دجلہ، سین، ٹیمس اور ہڈسن افسانوی قسم کے دریا ہیں۔ سب کے ساتھ ہی شعر و ادب کا رشتہ سمندروں سا گہرا ہے لیکن جیسے شعر اور شاعر ٹیمس کے حصہ میں آئے، شاہد ہی اور کسی دریا کو نصیب  ہوئے ہوں لیکن ہمارے نصیب میں دریائوں سے محرومی بھی لکھی تھی جیسے راوی کے بھی صرف راوی  رہ گئے، راوی مر گیا بلکہ مار دیا گیا۔ میں نے محمدہ، حاتم اور ہاشم سے یہ وعدہ لیا تھا کہ وہ انگلینڈ تا امریکہ کے اس سفر کی ڈائری لکھیں گے۔ بچے بضد تھے کہ ’’سفرنامہ‘‘لکھیں گے ۔ تب میں نے انہیں سمجھایا کہ سفرنامہ میں فکشن کی ملاوٹ اور مبالغہ سے بچنا سو انہوں نے دریائے ٹیمس سے لیکر ’’ٹاور آف لندن ‘‘ تک لندن کے تاریخی مقامات بارے خاصی معلومات ایڈوانس میںا کٹھی کر رکھی تھیں جو میرے لئے بھی بہت دلچسپ اور نئی تھیں۔ دریائے ٹیمس کو ٹیمز بھی لکھا جاتا ہے۔ یہ دریا لندن کا باپ ہے کہ صدیوں قبل اسی کےانہی کناروں پر آباد مچھیروں کی بستی آج لندن کہلاتی ہے۔ فیری کے رستے میں لندن کے بزنس سنٹرز مثلا ً بینکس، انشورنس کمپنیاں، آئل کمپنیاں اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر ٹین ایجز بچوں کیلئے کوئی کشش نہ رکھتے تھے لیکن پھر بھی انہیں بتایا کہ یہی حقیقی گلوبل پلیئرز ہیں جو بڑے بڑے سیاست دانوں کو بھی کٹھ پتلیوں کی طرح نچاتے ہیں۔ خوشگوار حیرت ہوئی جب بچوں نے ’’لندن آئی‘‘ کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جتنا وقت اس احمقانہ جھولے پر چکر کاٹنے میں ضائع کرتا ہے، وہ کسی ڈھنگ کی جگہ پر INVEST کیوں نہ کریں۔ اب باری تھی ٹریفالگر، پکاڈلی، ویسٹ منسٹر وغیرہ کی لیکن ان کے بارے کیا لکھنا کہ ہر کسی کو ازبر۔ دس سالہ ہاسم کا چپل گاڑی یعنی جہاز میں ٹکٹ آدھا، چڑیا گھر سے ٹیوب، ڈی ایل آر اور ٹرین تک بالکل فری۔ جاوید عمر نے ہاشم کو چھیڑا کہ تمہاری اوقات یہ کہ تم ہر جگہ بالکل مفت پائے جاتے ہو، اس نے کہا ’’جاوید انکل بات اوقات کی نہیں دہشت کی ہے، سب جانتے ہیں کہ میں نے 93فیصد مارکس لئے آپ جیسوں اور گوروں میں یہی فرق ہے کہ یہ لوگ ٹیلنٹ کی قدر کرتے ہیں‘‘۔ بائیس جون بری طرح تھکا کر رخصت ہو رہا تھا جب میں نے سوچا اگلا روز یعنی 23جون انگلینڈ کیا، پورے یورپ کیلئے انتہائی تاریخی اور فیصلہ کن دن ہوگا۔ ریفرنڈم کا دن تھا کہ برطانوی یورپی یونین کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ 
تازہ ترین