• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی عالم ِ اسلام میں سب سے پہلے سفارتی تعلقات قائم کرنے والے ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارتی اور فوجی تعلقات بھی کئی ایک عرب ممالک کےمقابلے میں ہمیشہ ہی بڑے قریبی رہے ہیں اور سیکولر حلقے ان تعلقات کو فروغ دینے کے لئے اپنی بھر پور کوششیں صرف کرتے رہے اور ایردوان کی وزارت عظمیٰ کےدور میں بھی ان تعلقات کو جاری رکھا گیا ۔ اس دوران ترکی کے وزیراعظم ایردوان نے ترکی اور فلسطین کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانےکی انتھک کوشش کی اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہے۔ایردوان نے حماس اور محمود عباس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے ساتھ ساتھ غزہ پر اسرائیل کی جانب سے عائد پابندیوں کو بھی ختم کروانے کے لئے عالمی سطح پر آواز بلند کی ۔انہوں نے ڈیوس عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر اسرائیل کے صدر کو فلسطینیوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم اور ہلاکتوں کے بارے میں لائیو پروگرام میں کھری کھر ی سنا کر مشرقِ وسطیٰ کے عربوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ حاصل کرلی ۔ اسرائیل نے جب غزہ کی ناکہ بندی کی تو کسی بھی عرب ملک سے کوئی آواز بلند نہ ہوئی اور اگر کوئی ملک اس موقع پر فلسطینیوں کی مدد کو دوڑا تو وہ صرف اور صرف ترکی ہی تھا۔ حکومت ِ ترکی کے ساتھ ساتھ ترکی کی مختلف سول سوسائٹیز نے آگے بڑھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کے دکھ کا مداوا کرنے کی بھر پور کوششیں کیں۔
ترکی کی سول سوسائٹیز نے چند ایک مغربی ممالک کی سول سوسائٹیز کے تعاون سے فلسطینیوں کو خوراک ، ادویات اور دیگر اشیائے ضرورت بہم پہنچانے کے لئے فریڈم فلوٹیلا کے ذریعے اپنے سفر کا استنبول سے آغاز کیا اور اس فریڈم فلوٹیلا کی منزل مقصود غزہ تھی لیکن اسرائیلی کمانڈوز نے اس قافلے کو غزہ پہنچنے سے قبل ہی کھلے سمندر میں بین الاقوامی پانیوں میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ایک بہت بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کردیا ۔ فریڈم فلوٹیلا میں شامل ماوی مرمرہ نامی فری بوٹ جس پر نہتے ترک اور غیر ملکی باشندے سوار تھے پر رات کی تاریکی میں حملہ کرتے ہوئے دس ترک باشندوں کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ اسرائیل فوجیوں کی جانب سے دس نہتے ترک باشندوں کی ہلاکت پر ترکی نے اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا اور اسرائیل سے فوری طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت طلب کرنے، شہدا کے ورثہ کو ہرجانہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ غزہ کی ناکہ بندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔اسرائیل کی جانب سے ان مطالبات کو مسترد کئے جانے پر ترکی نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اس کیس کو عالمی عدالت لے جانے سے آگاہ کردیا ۔ ترکی نے اس دوران اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات سفیر کی سطح سے کم کرتے ہوئےتھرڈ سیکرٹری کی سطح تک کرلئے اور اپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلانے کے علاوہ ایک ہفتے کے اندر اندر اسرائیل کے سفیر کو ترکی سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ اقوام متحدہ کے پالمر تحقیقاتی کمیشن کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے جان بوجھ کر فاش کئے جانے پر ترکی نے شدید ردِ عمل ظاہر کیا اور اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے تمام معاہدوں کو منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ نیٹو اور اسرائیل کی فوجی مشترکہ مشقوں کے خلاف ویٹو استعمال کرتے ہوئے ان فوجی مشقوں میں اسرائیل کی شمولیت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ نیٹو کی تاریخ میں پہلی بار کسی رکن نے فوجی مشقوں کے خلاف ویٹو کا استعمال کیا تھا ۔ اس سے قبل نیٹو کا کوئی بھی رکن اسرائیل کے خلاف اس قسم کا کوئی قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کرسکا تھا۔ اسی دوران ترکی اسرائیل پر اپنے دباؤ میں مسلسل اضافہ کرتا چلا گیا حالانکہ اسرائیل نے کئی بار ترکی کو مذاکرات کی پیش کش کی لیکن ترکی نے اپنی تینوں شرائط منوانے تک کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ لینے سے انکار کردیا اور اپنے موقف پر ڈٹا رہا۔
متحدہ امریکہ نے کئی بار ترکی اور اسرائیل کے درمیان فریڈم فلوٹیلا کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی آخر کار امریکہ کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں یکم مارچ 2013 کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لئے مذاکرات کا آغاز کیا گیا ۔اس موقع پر ترکی نے امریکہ پر واضح کردیا تھا کہ جب تک اسرائیل انگریزی لفظ " Apology" یا پھر عبرانی لفظ " Itznatlut" استعمال نہیں کرتا وہ اسرائیل کی معذرت کو ہرگز قبول نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں جب تک بلیو مرمرہ فری بوٹ میں اسرائیلی کمانڈوز کی گولیوں کا نشانہ بننے والےشہدا کے ورثہ کو ہرجانہ ادا نہیں کردیا جاتا اور غزہ کی ناکہ بندی کو ختم نہیں کردیا جاتا ترکی اسرائیل کے ساتھ میز پر نہیں بیٹھے گا۔ امریکہ کے شدید دبائو کے نتیجے میں اسرائیل نے ترکی سے معذرت کرنے کو قبول کرلیا اور تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کے وزیراعظم نے ترکی سے معذرت کرتے ہوئے اپنی غلطی کوتسلیم کیا اور یوں مذاکرات کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا گیا۔
اسرائیل کی جانب سے ترکی سے معذرت طلب کئے جانے پر عرب ممالک خاص طور پر فلسطین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور عرب میڈیا نے اسرائیل کی جانب سے معذرت طلب کئے جانے کو وزیراعظم ایردوان کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ۔ میڈیا نے عرب رہنماؤں کو کوستے ہوئے شاہراہوں پر ایردوان کی تصاویر اٹھاتے ہوئے ترکی کے حق میں مظاہرے کئے۔
امریکہ کی نگرانی میں 2013ء سے ترکی اور اسرائیل کے درمیان جاری رہنے والے یہ مذاکرات 27 جون کو اصولی طور پر اور 28 جون کو عملی طور پر دستخط کئے جانے کے بعد تعلقات کی بحالی کی جانب پہلا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔ طے پانے والے معاہدے کی رو سے اسرائیل نے ترکی کو 20 ملین ڈالر ہرجانہ دینے کو بھی قبول کرلیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ غزہ پر عائد پابندیوں کو بھی کچھ حد تک نرم کرنے اور غزہ کو اسرائیلی پورٹ کے ذریعے امداد بہم پہنچانے کی شق پر بھی عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کو روم میں امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر خوشی کا اظہار کیا ہےجبکہ ترکی کے وزیراعظم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اسے غزہ اور فلسطین کے عوام اور ترکی کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے دونوں ممالک میں سفیروں کی سطح پر تعلقات قائم ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں ترکی کی قومی اسمبلی اور اسرائیل کی کابینہ کی طرف سے اس معاہدے کی منظوری ضروری ہے۔ معاہدے کی رو سے ترکی غزہ کو ناصرف انسانی امداد اور دیگر غیرفوجی اشیاء فراہم کر سکے گا بلکہ وہاں رہائشی عمارتوں اور اسپتالوں سمیت بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے منصوبوں پر کام کر ےگااور پانی اور بجلی کی کمی کا بھی سدباب کیا جا سکے گا۔دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں حماس کے بارے میں کوئی شق موجود نہیں ہے اور ترک حکام کی جانب سے یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ترکی حماس کی حمایت کو اسی طریقے سے جاری رکھے گا جس طرح اس سے پہلے کی جاتی رہی ہے۔ صدر ایردوان نے طے پانے والے معاہدے کے بعد ایک بیان میںکہا ہے کہ ترکی کی جانب سے اس جمعہ کو غزہ دس ہزار ٹن امدادی سازو سامان روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ غزہ کے بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا جاسکے۔ صدر ایردوان اور وزیراعظم بن علی یلدرم نے اس معاہدےکو حتمی شکل دینے سے قبل فلسطین کے صدر اور حماس کے رہنما خالد مشعل سے بھی مشورہ کیا۔ ترک عوام کی جانب سے اس معاہدے کو ترکی کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے تو اسرائیلی عوام نے وزیراعظم نیتن یا ہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے اسرائیل کے لئے شرمناک معاہدہ قرار دیا ہے۔
تازہ ترین