• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں ہونے والے حالیہ ریفرنڈم کے چونکا دینے والے نتائج نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یورپین یونین میں رہنے یا نہ رہنے سے متعلق ہونے والے اِس تاریخی ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپین یونین چھوڑنے کے حق میں ووٹ دیا اور یورپیں یونین چھوڑنے کے حق میں 15.7 ملین جبکہ یورپین یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں 14.58 ملین ووٹ آئے۔ ریفرنڈم میں نوجوانوں کی اکثریت نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے جبکہ بزرگوں نے یورپی یونین سے علیحدگی کا ووٹ دیا۔ ریفرنڈم نتائج کے بعد برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ وہ یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں تھے۔ یاد رہے کہ 2015ء میں انتخابی مہم کے دوران ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ الیکشن جیت گئے تو یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے ریفرنڈم کروائیں گے، اس طرح برسراقتدار آنے کے بعد اُنہیں ریفرنڈم کروانا پڑا اور عوام سے کیا گیا وعدہ اُن کی وزارت عظمیٰ لے ڈوبا۔
ریفرنڈم کے بعد یورپی رہنمائوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد یورپی یونین سے نکل جائے کیونکہ اس میں تاخیر غیر یقینی صورتحال کو ہوا دے گی۔ یورپی رہنما برطانیہ پر یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ انخلاء کا مطلب انخلاء ہے اور اس سلسلے میں مزید بات چیت نہیں کی جائے گی تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد مزید کئی یورپی ممالک برطانیہ کی پیروی کرسکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں لزبن ٹریٹی معاہدے کے تحت عوامی فیصلے کی روشنی میں برطانوی وزیراعظم یورپی یونین کو علیحدگی کی باضابطہ درخواست دینے کے پابند ہیں مگر ڈیوڈ کیمرون کی خواہش ہے کہ یہ درخواست آئندہ وزیراعظم دے جس کے بعد یورپی یونین کے ممبر ممالک متفقہ طور پر اس کی منظوری دیں گے لیکن یورپی یونین سے باضابطہ علیحدگی میں برطانیہ کو دو سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ ریفرنڈم کے نتائج کے فور ی بعد برطانوی کرنسی پائونڈز پر منفی اثرات مرتب ہوئے جو 13 فیصد گرکر 1985ء کی سطح پر آگیا جبکہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بازار حصص میں شدید مندی دیکھی گئی۔
برطانیہ 1973ء میں یورپی یونین کا حصہ بنا تھا اور 4 عشروں تک یورپی یونین میں رہنے کے بعد برطانوی عوام نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ 1993ء میں یورپی یونین کا قیام اُس وقت عمل میں لایا گیا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک نے فیصلہ کیا کہ ممبر ممالک کی معیشت کی بہتری کیلئے باہمی تجارتی تعلقات مضبوط بنائے جائیں، اس مقصد کیلئے 1958ء میں یورپی اکنامک کمیونٹی تشکیل دی گئی۔ بعد ازاں یورپی یونین کا قیام عمل میں لایا گیا اور ممبر ممالک کی مشترکہ پارلیمنٹ وجود میں آئی جس کے بعد یورپی ممالک کے درمیان سرحدوں کا خاتمہ کرکے سنگل مارکیٹ کا نظریہ عمل میں آیا۔ 4 عشروں تک یورپی یونین کی مثالیں دنیا بھر میں دی جاتی رہیں لیکن بعد میں یورپی یونین کو توسیع دے کر پولینڈ، رومانیہ، سلوانیہ اور سلواکیہ سمیت مشرقی یورپ کے کئی ممالک کو یورپی یونین میں شامل کرنے سے ان ممالک سے ہجرت کرکے برطانیہ آنے والے تقریباً 30 لاکھ باشندوں کی وجہ سے برطانیہ میں نہ صرف امیگریشن مسائل پیدا ہوئے بلکہ برطانیہ کے نیشنل ہیلتھ کیئر اور سوشل ویلفیئر پر یہ افراد بوجھ بن گئے جس سے برطانوی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ برطانوی عوام کی اکثریت اس بات سے ناخوش تھی کہ یورپی یونین، شام، لیبیا، عراق اور دیگر ممالک سے یورپ آنے والے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو قبول کرنے کیلئے برطانیہ سے مسلسل اصرار کررہا تھا۔ اسی طرح ریفرنڈم سے قبل یوکے انڈی پینڈنٹ پارٹی کے سربراہ نائیجل فریگ نے ’’فری یو کے‘‘ نامی مہم میں یہ پروپیگنڈہ کیا کہ برطانیہ ہر سال یورپی یونین کے بجٹ میں تقریباً 18 ارب ڈالر کی کنٹری بیوشن کرتا ہے، یہ رقم اگر برطانوی عوام کی صحت اور فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے تو اُن کی زندگی میں بہتری آسکتی ہے۔ ان تمام عوامل نے برطانوی شہریوں کو یورپی یونین کے تسلط کے خلاف جدوجہد پر اُکسایا جو بالآخر برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کا سبب بنے۔ ریفرنڈم سے قبل امریکی صدر باراک اوباما، امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن اور دیگر عالمی رہنما برطانیہ کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کا فیصلہ پرخطر ہے جس کے برطانوی معیشت پر دور رس منفی نتائج برآمد ہوں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام حقائق جانتے ہوئے بھی برطانوی شہریوں نے خطرات مول لے کر یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس سوال پر یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران برطانوی عوام میں قوم پرستی کے جذبے نے جنم لیا ہے، وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کی آزادی سلب اور خود مختاری متاثر اور نہ ہی اُن کے فیصلے لندن کے بجائے یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹربرسلز میں ہوں۔
ریفرنڈم کے بعد برطانیہ نامعلوم سفر کی جانب چل پڑا ہے جبکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد براعظم یورپ کو متحد کرنے اور تنازعات سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے تمام منصوبے بھی عدم استحکام کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایک دور تھا جب دنیا کے 30 فیصد حصے پر برطانیہ کی حکمرانی تھی، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا سے لے کر برصغیر پاک و ہند، ہانگ کانگ اور سنگاپور پر برطانیہ کا راج تھا، اُس دور میں برطانوی سلطنت اتنے وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی کہ اگر سلطنت میں ایک طرف سورج غروب ہورہا ہوتا تو دوسری طرف طلوع ہورہا ہوتا تھا مگر پھر وہ دور آیا جب برطانوی سلطنت آہستہ آہستہ سمٹ کر انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے فیصلے کے بعد اسکاٹ لینڈ نے برطانیہ سے الگ ہونے کا عندیہ دیا ہے کیونکہ ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ کے عوام کی اکثریت نے یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا جبکہ کچھ اِسی طرح کے خدشات شمالی آئرلینڈ کی جانب سے بھی کئے جارہے ہیں جس کے بعد برطانیہ مزید سکڑ کر رہ جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کل تک برطانیہ کے زیر تسلط ممالک برطانیہ سے آزادی کا نعرے لگاتے تھے مگر آج برطانوی عوام یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے کو ’’یوم آزادی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
تازہ ترین