• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
راقم کئی باربھارت جاچکا ہے۔ پچھلے ہفتے بھی ایک سیمینار کے سلسلے میں وہیں تھا۔ دہلی سے علی گڑھ اور آگرہ تک کا سفر سڑک سے کیا۔ راستے میں ایک ڈھابے پر کھانے کے لئے رُکے۔باقی سب تو تقریباً پہلے جیسا تھا۔ ایک نئی بات یہ دیکھی کہ چائے مفت مل رہی تھی، جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر نریندر مودی کی تصویر والے ڈسپوزیبل پیالوں میں پیش کی جارہی تھی۔ دو ایک جگہ پر انتخابی جلوس دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔ شرکا کا جوش و خروش دیدنی تھا اور اکثریت نے نریندر مودی کے فیس ماسک پہن رکھے تھے۔موصوف کی تصویر والے جہازی سائز اشتہارات اور ہورڈنگز کی تو گویا بھارت بھرمیں اک فصل اُگ آئی ہے۔کوئی گزر گاہ،کوئی شاہراہ ان سے خالی نہیں۔ یہ سارا اہتمام عام انتخابات کیلئے ہے۔ جن کا آغاز 7اپریل سے ہوچکا اور نو مختلف مرحلوں میں 12مئی تک جاری رہے گا۔ ساڑھے اکیاسی کروڑ ووٹر ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی 543نشستوں کے لئے ووٹ ڈالیں گے۔ نتائج کا اعلان 16مئی کو ہوگا۔ جبکہ موجودہ لوک سبھا کی آئینی مدت 31مئی کو پوری ہورہی ہے۔ 543 کے ایوان میں کسی بھی جماعت یا اتحاد کو حکومت بنانے کیلئے 272نشستوں کی ضرورت ہوگی۔ گزشتہ عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ 58فیصد تھا اور آثار بتارہے ہیں کہ اس مرتبہ زیادہ ہوگا۔ یوں تو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 1616ہے، مگر قومی سطح کی جماعتیں صرف چھ ہیں۔ اور اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہونے جارہا ہے۔ پری پول سروے شدو مد سے جاری ہیںاور تازہ ترین کے مطابق بی جے پی 53فیصد والے لے جائے گی۔ جبکہ کانگریس کے لئے 19فیصد کی پیشگوئی کی جارہی ہے،باقی دیگر چھوٹی جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ وزارت عظمیٰ کیلئے کانگریس کے امیدوار راہول گاندھی ہیں، جبکہ بی جے پی کا انتخاب نریندر مودی ہیں۔
معروف پولیٹکل فلاسفر اور جہانبانی و جہانداری کے اسرار و رموز پر مشتمل کتاب ’’دی پریس‘‘ کے مصنف میکاولی نے کہا تھا کہ ’’لیڈر پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے۔ کوئی شخص یا تو لیڈر ہوتا ہے، یا پھر نہیں ہوتا‘‘۔ کانگریس کی بدقسمتی کہ اندراجی کے بعد نہروز میں لیڈر پیدا ہونا بند ہوگئے۔ ان کے چھوٹے صاحبزادے سنجے میں قیادت کے جرثومے تھے مگر موت کے بے رحم ہاتھوں نے بے وقت اچک لیا۔ بڑے صاحبزادے راجیو گاندھی گو پانچ برس تک وزیراعظم رہے۔ مگر محض نہرو اور اندارگاندھی کی سیاسی کمائی کے بل پر۔ ذاتی جوہر نہ ہونے کے برابر تھا۔ راہول کا مسئلہ تو اور بھی گمبھیر ہے۔ وہ تو سرے سے مرد سیاست ہے ہی نہیں۔ یہ تو قیادت کا بحران ہے کہ کانگریس کو اسے سامنے لانا پڑا ہے۔ 43سالہ راہول ایک ڈرا ہوا شخص ہے۔ جس نے محض 14برس کی عمر میں پرائم منسٹر ہائوس میں اپنی دادی کی لاش گرتی دیکھی تھی۔ جس کا باپ بھی ایک خودکش حملے میں ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ موت تو دور کی بات وہ تو دادی کے جیل جانے پر بھی پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا تھا۔ وہ بے چارہ تو باپ کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بھی دکھی اور پریشان رہا کرتا تھا۔ اور بڑی حسرت سے اس وقت کو یاد کرتا تھا، جب ڈیڈ ایئر انڈیا میں پائلٹ تھے ، اور وہ سب بےفکری کی زندگی گزارا کرتے تھے۔ پے درپے خاندانی المیوں نے اسے اندر سے کھوکھلا اور بی حد تک بزدل بنا دیا ہے۔ جس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر تباہی کا راستہ اپنانے کیلئے تیار نہیں، سیاست پہ تو اس نے ایک بڑا کراس کھینچ رکھا تھا۔ جب بھی اس موضوع پر گفتگو ہوتی، تو وہ بات ٹال دیتا اور لمبے ٹور پر یورپ کی طرف نکل جاتا تھا۔ مگر اب بیچارہ پھنس گیا ہے۔ پچھلے برس جے پور کے پارٹی کنونشن میں جب وہ نائب صدر منتخب ہوا اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ آئندہ انتخابات میں کانگریس کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی ہوگا۔ تو اس موقع پر راہول کی تقریرا پنے اندر جہان معانی لئے ہوئے ہے۔ اس نے کہا تھا۔ ’’آپ سب نے مجھے مبارک باد دی، پرائم منسٹر صاحب نے بھی اور میری ماں نے بھی جو کل رات دیر تک میرے کمرے میں بیٹھی روتی رہیں، کیونکہ انکے ماضی کے سارے زخم کھل گئے تھے۔ دینوی منصب اور عہدے کچھ معنی نہیں رکھتے۔ لوگ اقتدار کی حقیقت کو سمجھے بغیر خواہ مخواہ اس کے پیچھے بائولے ہوئے پھرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو فی الحقیقت زہر ہے۔ انتہائی مہلک زہر، جو اپنے پیچھے بھاگنے والوں کی رگوں میں اتر جاتا ہے۔ اس کا کوئی تریاق ہے تو محض یہ کہ اسے خلق خدا کی خدمت کیلئے استعمال کیا جائے، لوگوں کو ایمپاور کیا جائے۔ اپنی ذات کے لئے اقتدار کو استعمال کرنے والے بیشک خسارے میں رہتے ہیں۔ اپوزیشن والوں نے راہول کے اس بھاشن کا خوب ٹھٹھہ اڑایا تھا۔ اور سادھو، سنیاسی کی پھبتیاں کسی تھیں کہ اگر واقعی تمہاری یہی سوچ ہے تو بن باس کیوں نہیں لے لیتے؟ شاید وہ وقت آب آگیا ہے۔
بھارتی صحافی اور تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ’’سادھو‘‘ راہول کا نریندر مودی سے کوئی مقابلہ نہیں۔ 63سالہ مودی ایک سیلف میڈ آدمی ہے۔ جس کی تمام زندگی جدوجہد سے بھرپور ہے۔ جس نے آبائی گائوں وید نگر کے ریلوے اسٹیشن پر چائے بھی بیچی ہے اور باپ کی نمک پیسنے والی چکی ہر کام بھی کیا ہے۔ جسے آٹھویں جماعت میں اسکول اسے لئے چھوڑنا پڑا کہ وسائل میسر نہ تھے۔ جو طالب علم تو اوسط درجہ کا تھا۔ مگر غیر نصابی سرگرمیوں میں سب کا سرخیل۔ وہ ایک اچھا مقرر تھا، عمدہ اداکار اور بہروپ بھرنے کا ماہراور ڈرامہ کلب کی جان۔ گویا کہ کامیاب سیاست دان بننے کے جملہ عوامل اس کی ذات میں شروع سے ہی موجود تھے۔ فلموں کا رسیا مودی، راجیش کھنہ کا فین تھا اور لاشعوری طور پر اس کے پہناوے اور نشست و برخاست کے انداز سے متاثر ہے۔ وہی سفید کرتا، اسی وضع کا پاجامہ اور چپل۔ سیاست کو صحیح معنوں میں اسکی زندگی کا اوڑھنا بچھونا کہا جاسکتا ہے۔ جس کی لئے اس نے اپنا سب کچھ تپاگ دیا اور کسی جذباتی تعلق واسطے کو پائوں کی زنجیر نہیں بننے دیا۔ گھر والوں نے شادی کی مگر وہ ہاتھ جھاڑ کر گھر سے نکل گیا۔ اور برسوں بعد اس وقت پلٹا جب باپو کی چتا کو آگ دکھانا تھی۔ اب بھی بھرا بھرایا گھر ہے۔ بہن بھائی، حتیٰ کہ ماتاجی بھی زندہ ہیں۔ مگر وہ سب سے الگ رہتا ہے۔ اور کام، کام اور کام کو ماٹو بنائے ہوئے ہے۔ گجرات اسٹیٹ اور نریندر مودی لازم و ملزوم دکھائی دیتے ہیں۔ مسلسل تیرہ برس سے وزیراعلیٰ ہیں اور ریاست کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ جس کی اقتصادی ترقی کے چرچے ہندوستانیوں میں ہی نہیں، ملک سے باہر بھی ہیں۔ اور دیگر کئی بھارتی ریاستوں میں ترقی کے اس ماڈل پر کام ہورہا ہے۔ مودی مخالفین کی غلطیوں، کمزوریوں پر گہری نظر رکھنے اور بروقت جھپٹنے میں ثانی نہیں رکھتا اور خوب جانتا ہے کہ کب گرمی دکھانا ہے اورکب برف ہوجاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مودی ایک قوم پرست ہندو ہے اور ہندو دھرم کے عروج کا متمنی بھی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان ووٹر اس کیلئے پرجوش نہیں۔ 2002 کے گودھرا کے مسلم کش فسادات انہیں آج بھی ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہیں۔ جن میں ایک ہزار سے زائد کلمہ گو ذبح کردیئے گئے تھے۔ مسلمانوں کا رجحان کانگریس کی طرف ہے اور اس حوالے سے جامع مسجد دہلی کے امام بخاری کا اعلان بھی سامنے آچکا ہے۔
کانگریس گزشتہ دس برس سے اقتدار میں ہے اور یہ طوالت اقتدار ہی اس کے لئے جان کا عذاب بن گئی ہے۔ اس سارے عرصے میں منموہن سنگھ مسلسل وزیراعظم رہے ہیں، اقتصادی شعبہ میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت کا ہر کوئی معترف ہے۔ ان کی دیانت پر بھی کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ مگر عین ان کی ناک کے نیچے ہونے والے کرپشن کے قصے ہر کسی کی زبان پر ہیں۔ روزافزوں مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کی تمام تر ذمہ داری کانگریس پر عائد ہورہی ہے اور لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ منموہن سنگھ کے لئے پہلے پانچ برس کافی تھے اور دوسری ٹرم راہول کو ملنا چاہئے تھی۔ جو ایک مدت سے پرائم منسٹر ان ویٹنگ ہیں اور نہ جانے ان کی یہ خواہش اب کبھی پوری ہوتی بھی ہے یا نہیں۔ راہول کے سائیڈ لائن ہونے سے پارٹی نوجوانوں کے ووٹ سے بھی محروم ہی۔ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ دوسری ٹرم سونیا گاندھی خود لے لیتیں۔ کیونکہ ویسے بھی تو اس سارے عرصہ میں اقتدار کی ڈوری انہیں کے ہاتھ میں رہی۔ بھارتی انتخابات کے عمل کو پاکستان دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔ اور بھارت کی نئی حکومت کے ساتھ مل کر خطہ میں امن و امان اور عوام کی ترقی و خوشحالی کیلئے کام کرنے کا خواہاں ہے۔ جو نریندر مودی کی جیت کی صورت میں کچھ زیادہ سہل نہ ہوگا۔
تازہ ترین