• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسد کھرل کو رینجرز سےچھڑانے والا ’جانی شاہ‘ کون ہے ؟

Asad Indicted Who Released Them From Ranger
افضل ندیم ڈوگر.... لاڑکانہ میں سندھ رینجرز سے اسد کھرل کو چھڑانے کی کارروائی کا مرکزی کردار پولیس اہلکار ’’جانی شاہ‘‘ تھا جو پولیس میں سب انسپکٹر ہوتے ہوئے لاڑکانہ میں ضلع کے سی آئی اے یونٹ کا انچارج ہے۔

ذرائع کے مطابق ان کے والد ماضی میں سندھ پولیس میں ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ جانی شاہ والد کے دور میں ہی پولیس میں بھرتی ہوا تھا جو گزشتہ دور میں سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر پے در پے آوٹ آف ٹرن ترقیاں پاکر بڑے عہدے تک جا پہنچا تھا مگر اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آؤٹ آف ٹرن ترقیاں ختم کئے جانے کے بعد سندھ کے دیگر اعلیٰ افسران کی طرح اسے بھی سب انسپکٹر بنا دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق شہداد کوٹ میں ان کی برادری اور مریدوں کے لگ بھگ 30 ہزار ووٹ اور علاقے میں غیرمعمولی مذہبی کردار ہونے کی وجہ سے جانی شاہ کا خاندان کئی دہائیوں سے علاقے کے سرکردہ افراد کی آنکھ کا تارا رہا ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جانی شاہ اور ان کا خاندان اپنے علاقے میں پیپلزپارٹی کا انتہائی مخالف تھا اور ق لیگ کے رہنما سابق صوبائی وزیر الطاف انڑ کے انتہائی قریب سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے پولیس میں بھی وہ اچھے عہدوں پر تعینات رہا۔

ذرائع کے مطابق اسی دور میں مبینہ طور پر جانی شاہ کے کہنے پر غلام رسول ڈومکی اور عبد الستار ڈیتھو جیسے پولیس افسران کو لاڑکانہ میں ڈی پی او تعینات کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت کے ڈی پی او اور دیگر افسران صرف اپنے دفاتروں میں بیٹھنے تک ہی محدود سمجھے جاتے تھے جبکہ تھانوں میں ایس ایچ اوز کی تقرری اور دیگر تبادلے مبینہ طور پر اسی کردار کے ذریعے ہوتے تھے۔ پولیس کی کئی کئی گاڑیاں، عملہ اور پیٹرول اور ڈیزل کے کارڈز اور ضلع کا پولیس بجٹ بھی جانی شاہ کے ذریعے خرچ ہوتا تھا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق اسی جانی شاہ کے مبینہ احکامات پر عمل درآمد میں رکاوٹ پر اس وقت کے ڈی پی او سلطان خواجہ اور عرفان بلوچ کے مبینہ طور پر تبادلے بھی سامنے آئے تھے۔

سال 2013 میں سیاسی موسم تبدیل ہونے لگا تو دیگر کرداروں کی طرح جانی شاہ بھی الطاف انڑ کا نہ رہا اور اس خاندان نے سابق صدر آصف علی زرداری کے لاڑکانہ میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد سے تعلقات استوار کرلئے ۔بہت کم عرصے میں وہ طارق سیال اور ان کے بھائی سہیل انور سیال کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔

ذرائع کے مطابق گزشتہ عام انتخابات میں شہداد کوٹ سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 207 سے سابق صدر آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کو کامیاب کرانے میں جانی شاہ کی برادری اور مریدوں کے لگ بھگ 30 ہزار ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس وجہ سے وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بھی قریب ہوگیا۔ پھر جب سہیل انور سیال کو صوبائی وزیر داخلہ سندھ کا قلمدان سونپا گیا تو جانی شاہ کا طوطی لاڑکانہ اور اطراف کے اضلاع میں بولنے لگا۔

گزشتہ کئی ماہ سے سندھ کے بیشتر اضلاع میں وزیر داخلہ کے بعد ان کے بھائی ظفر انور سیال عرف طارق سیال اندرون سندھ کے ’’ وزیر داخلہ ‘‘ کہلائے جاتے ہیں اور پولیس سب انسپکٹر’’جانی شاہ‘‘ ان کا دست راست ہے۔ سب انسپکٹر ہونے کے باوجود جانی شاہ ضلع لاڑکانہ میں سی آئی اے کا انچارج مقرر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ضلع بھر میں پولیس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کے احکامات انہیں کی پرچیوں پر جاری ہوتے ہیں۔

یہی نہیں اس پولیس افسر کے اختیارات ڈی آئی جی اور ایس ایس پی سے بھی زیادہ سمجھے جاتے ہیں۔ کس وقت کس مخالف یا نافرمان کو کس طرح اور کہاں مزا چکھانا ہے یہ سب مبینہ طور پر اسی کردار کے ذریعے ہوتا ہے۔ لاڑکانہ میں پولیس افسران اپنے دفاتر میں ہوں یا نہیں، جانی شاہ ان کے دفتر میں موجود رہ کر تمام امور نمٹاتا نظر آتا ہے۔ ضلع لاڑکانہ کے تھانوں کے چوکی انچارجز، ایس ایچ اوز یا پھر ڈی ایس پیز، ہر جگہ اسی کا سکہ چلتا ہے۔

اسی طرح ضلع میں پولیس کو جو بھی آمدنی ہوتی ہے وہ مبینہ طور پر جانی شاہ تک ہی پہنچتی ہے۔ اسے تھانوں سے ماہانہ آمدنی یا پھر مقدمات ادھر ادھر کرنے کے معاملات ہوں اب جانی شاہ کے اشارے پر ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والا پولیس کے بجٹ کو بھی جانی شاہ کے ایماء پر ادھر ادھر کیا جاتا ہے۔

ذرائع کے مطابق جانی شاہ پولیس میں ہوتے ہوئے اپنے علاقے میں ایک مذہبی تنظیم کا سربراہ بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق ماضی میں علاقے میں مذہبی جھگڑے میں ہلاکتوں کی بنا پر اسے ڈی پی او لاڑکانہ کی جانب سے عہدے سے ہٹایا بھی جاچکا ہے مگر کچھ عرصے بعد وہ دوبارہ فعال ہوا تو وہ ڈی پی او اس علاقے میں نہیں رہ سکا۔
تازہ ترین