• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک بھارت ایٹمی جنگ کے خدشات سر اٹھانے لگے،روسی میڈیا کا دعویٰ

Pak India Nuclear Concerns Begin Lifting Russia Media
رفیق مانگٹ....روسی میڈیا کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں جھڑپو ں نے پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ کے دوبارہ خدشات پید اکرد یئے ہیں۔ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق چاہتی ہے، مفکرین کشمیر کو بھارتی کنٹرول میں دینے کے عمل کو برطانیہ کی فاش غلطی قرار دیتے ہیں ، تقسیم ہند کے دوران نقشہ سازی میں کئی غلطیاں کی گئی، ایسٹ پاکستان اور ویسٹ پاکستا ن کی تقسیم بھی غلط انداز میں کی گئی، بھارتی نواز لارڈ ماؤنٹ بیٹن مسلمان اکثریتی علاقوں کی ٹکڑوں میں تقسیم چاہتے تھے۔

مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورت حال کے اشارے ایک قیامت خیز منظر نامے کی سمت تیزی سے بڑھ سکتے ہیں۔ روسی خبر رساں ادارے’اسپتنک‘ کے مطابق طویل عرصے سے نظر انداز کیے گئے کشمیری عوام کے مصائب نے دوحریف ممالک کے درمیان دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک بھرپور ایٹمی جنگ چھڑ جانے کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔ مسلم اکثریتی خطہ کشمیر جسے طویل عرصے سے بھارت نے زبردستی اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے ،وہاں ایک بار پھرکشیدگی نے سر اٹھا لیا ہے، اس خطے کی آبادی پاکستان کے ساتھ اپنے بھائیوں سے الحاق چاہتی ہے۔

تنازعہ کشمیر ہی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان دیرینہ تناو کی وجہ ہے۔آج پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھارت سےکشمیر کا کنٹر و ل واپس لینے کا عزم رکھتے ہیں ، کشمیر کا کنٹرول بھارت کو دئیے جانے کے عمل کو تاریخ کے مفکرین برطانوی منتظمین کی طرف سے ایک المناک غلطی قرار دیتے ہیں ۔ 1947میں تقسیم ہند کے وقت جواہر لا ل نہرو کے دوست لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی طرف سے خطر ناک تقسیم کی گئی جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو اس طرح تقسیم کیا کہ دونوں کے درمیاں ہزاروں میل کا فاصلہ تھا اور دونوں کے درمیان بھارتی زمین واقع تھی ،یہی تقسیم دس لاکھ افراد کی موت کا سبب بنی۔ا س تقسیم کے ایک سال بعد ایک اور خونی جنگ ہوئی اور دس لاکھ مزید لوگوں کو مار دیا گیااور آخرکار ایسٹ پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔

تقسیم ہند کے دوران نقشہ سازی کے دوران اور بھی کئی غلطیاں تھیں۔ ماؤنٹ بیٹن مسلمان اور ہندو اکثریتی علاقوں کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ کشمیر، ہمیشہ سے اسلامی عقیدے کی آبادی کا غالب خطہ تھا جس کے ستر فی صد سے زائد مسلمان ہیں ۔پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنے اپنے تقریباً 120جوہری وار ہیڈز پر براجمان ہیں جو کرہ ارض پر زندگی کو کئی بار ختم کر سکتے ہیں۔

کشمیر میں 1989سے 2002کے درمیان کی کشیدگی نے صورت حال کو انتہائی نازک بنا دیا تھا،ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس عرصے میں 50 ہزار جب کہ امریکی کانگریس کے سابق رکن کے مطابق نوے ہزار سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔دس سال پہلے پاکستان اور بھارت نے کئی دہائیوں سے خطے میں جاری محاذ آرائی اور کشیدگی سے نکلنے کا اصولی فیصلہ کیا کہ لائن آف کنٹرول کے آر پار لوگوں اور سامان کی آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دیدے دی جائے۔

یہ معاہدہ دونوں ممالک کے لئے فتح ہوتا اگر دس لاکھ بھارتی فوجیوں کو بھارت کشمیر سے واپس بلا لیتا اورمقامی لوگوں کو مشترکہ طور پر انتظامی اختیار دے دیا جاتا جو اس خطے کی خودمختاری کی راہ ہموار کرتا لیکن ایسا نہ ہوسکا،اور اس وقت کے رہنما پرویز مشرف نے القاعدہ کے خلاف جنگ کےلئے بش انتظامیہ کی طرف اپنا جھکاؤ کر دیا ۔

آٹھ جولائی کے بعد سے جب ایک مقبول نوجوان مسلم رہنما برہان وانی کوبھارتی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ میں شہید کردیا گیا، اس وقت سے کشمیر کی صورت حال پہلے کی طرح بدترین ہو چکی ہے۔ کشمیری عوام غم و غصے میں ہیں، مظاہروں میں کم از کم50سے زائد افراد کو شہید کیا جا چکا ہے سیکڑوں کو اندھا اور ہزاروں کو زخمی کردیا گیا ہے۔
تازہ ترین