• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ میں ایک ’شاہ‘ جائے گا دوسرا’ شاہ‘ آئیگا

Murad Ali Shah To Replace Qaim Ali Shah As Cm Sindh
کراچی کی صفائی تو نہ ہوئی سندھ کے وزرا کی چھانٹی ضرور ہوگئی،رینجرز اختیارات پر گفتگو کےلیے دبئی جانے والے بے اختیار ہوگئے۔قائم علی شاہ منصب قائم نہ رکھ سکے ، مراد علی شاہ کی مراد پوری ہوگئی ۔

دبئی میں موجود پی پی قیادت نے سندھ حکومت میں بڑی تبدیلی کا فیصلہ کرلیا ۔وزیراعلیٰ کیساتھ کابینہ کے دیگر ارکان بھی تبدیل ہوں گے ۔

تین نسلوں سے بھٹو خاندان کے وفادار
تین نسلوں سے بھٹو خاندان کے وفادار اور وزارت اعلیٰ کی ہیٹ ٹرک کرنے والے قائم علی شاہ اپنی کرسی قائم نہ رکھ سکے ۔رینجرز کے اختیارات پر قیادت سے رائے مانگنے گئے تھے اور خود اپنے اختیارات ہار بیٹھے ۔

سندھ کی ’شاہی‘ تبدیل کرنےکا فیصلہ دبئی میں کیا گیا، 86سال کے قائم علی شاہ کی 54 سال کے مراد علی شاہ سے تبدیلی کا امکان ہے۔تبدیلی صرف کپتان تک محدود نہیں ، کابینہ میں بھی بڑی اکھاڑ پچھاڑ ہوگی ۔

ترجمان پیپلز پارٹی فرحت اللہ بابر نے تصدیق کی کہ دبئی میںپیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطح اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ اور کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق وزارت داخلہ کے اہم قلمدان کے لیے نثار کھوڑو اور آغاسراج درانی کے نام زیر غور ہیں جبکہ وزیرداخلہ سندھ سہیل انورسیال اور شرمیلافاروقی کو نئی کابینہ میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع بتاتےہیں کہ پیپلز پارٹی سندھ کا اجلاس منگل کو کراچی میں طلب کیا گیا ہے جس میں چیئرمین پی پی بلاول بھٹو بھی شریک ہوں گے۔ اسی اجلاس میں وزیراعلیٰ قائم علی شاہ استعفیٰ پیش کریں گے۔

نامزد وزیر اعلیٰ کے سیاسی کیرئیر پر ایک نظر
دبئی میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ پارٹی رہنماؤں کی اہم بیٹھک میں سید مراد علی شاہ کو سندھ کا نیا وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

سید مراد علی شاہ کا تعلق ضلع جامشورو سے ہے۔ وہ 8 نومبر 1962 کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔1986 میں جامعہ این ای ڈی سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی ۔ اس کے بعد امریکہ کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیلیفورنیاسے اکنامک سسٹم اور سول اسٹریکچر انجینئرنگ کی ڈگریاں حاصل کیں ۔

سید مراد علی شاہ نے 1986 اور 1990 کے عرصے میں واپڈا ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور حیدر آباد ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں بحیثیت انجینئر ملازمت کی ۔سید مراد علی شاہ کے والد سید عبد اللہ شاہ سندھ کے معروف سیاستدان تھے۔ سید عبداللہ شاہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں 1993 سے 1996 تک سندھ کے وزیر اعلیٰ رہے۔

اپنے والد کی سیاسی میراث کو آگے بڑھاتے ہوئے مراد علی شاہ نے 2002 میں انتخابی سیاست میں قدم رکھا اور رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ۔ 2008 میں مراد علی شاہ جامشورو سے ایم پی اے منتخب ہونے کے بعد سندھ کے وزیر خزانہ بنے ۔ 2013 کے الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ان کی دوہری شہریت آڑے آئی تاہم بعد میں انہوں نے دہری شہریت کو خیر باد کہتے ہوئے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور ایک بار پھر سندھ کابینہ میں وزیر خزانہ بن گئے۔

دبئی میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ پارٹی رہنماؤں کی اہم بیٹھک میں قائم علی شاہ کو وزارت اعلیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد مراد علی شاہ نئے وزیر اعلیٰ کے لئے مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔

بزرگ جیالے کا سیاسی سفر
تین بار سندھ کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے سید قائم علی شاہ نے بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ۔ 50 سال سے پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ سندھ کے اس بزرگ جیالے کے سیاسی سفر طویل ہے ۔

سید قائم علی شاہ 1933 میں خیرپور میں پید اہوئے ۔ ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کیا ۔ 60 کی دہائی میں بی ڈی سسٹم کے تحت ضلع کونسل خیر پور کے چیئرمین منتخب ہوئے ۔ 1967ء میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔

1970ء کے عام انتخابات میں انھوں نے سید غوث علی شاہ کو شکست دی اور بھٹو کی کابینہ میں وزیر بنے ۔بھٹو حکومت کی معزولی کے بعد قائم علی شاہ کو بھی ضیاالحق حکومت نے گرفتار کرلیا تھا۔ دسمبر 1988 میں قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ۔ وہ 1988، 1990، 1993، 2002 ، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں خیر پور سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے ۔

2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد وہ دوسری مرتبہ وزیر اعلیٰ بنے جبکہ 2013 میں انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی ہیٹرک مکمل کرلی ۔ قائم علی شاہ کو ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے ۔

قائم علی شاہ کو کیوں ہٹایا گیا؟
آخر کار سندھ کے 83 سالہ وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی چھٹی کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سائیں قائم علی شاہ کی طویل العمری کا احساس ہو گیا یا انہیں ہٹائے جانے کی کوئی اور وجہ بنی مگر کیا وجوہات ہیں جو قائم علی شاہ کو گھر کی راہ دکھائی گئی ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

بلاول بھٹو زرداری کچھ عرصے سے پارٹی اور سندھ حکومت کے اہم عہدوں فائز اہم شخصیات کی کارکردگی سے ناخوش تھے ۔بلاول پارٹی کی نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے تھے اور آخر وہ کامیاب ہو گئے ۔

بلاول بھٹو کاسندھ حکومت سے ناراضی کا اظہار28جون 2016 کو مرحوم امجد صابری کےگھر تعزیت کےموقع پر اس وقت کھل کر سامنے آ یا جب صحافیوں کی جانب سے کراچی شہر میں سیکورٹی صورتحال پر بلاول بھٹو سے سوالات کئے تو انہوں نے وزیرداخلہ انورسیال کو آگے کر دیا تھا۔

انہیں ہٹائے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قائم علی شاہ کی حکومت پر سب سے زیادہ تنقید بیڈ گورننس کے حوالے سے ہوتی رہی ۔ نوکر شاہی اور شہری انتظامیہ ان کی کم ہی سنتی تھی۔ اس کی تازہ اور عملی مثال چند روز پہلے ہی سائیں کی جانب سے کراچی سے کچرا اٹھانے کے لئے شہری انتظامیہ کو 3 دن کی مہلت تھی۔ 3 دن گزر گئے مگر کچرے کے ڈھیر وہیں کے وہیں موجود ہیں۔ سائیں نے 3 دن بعد ایکشن کیا لینا تھا ۔ایسا ری ایکشن دکھایا کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے ۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کو گلا تھا کہ گزشتہ سال نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ اپنے اختیارات استعمال کرنے میں ناکام رہے اور وفاق اور ایپکس کمیٹی کے سامنے سندھ حکومت کا موقف بھی بہتر انداز میں نہیں پیش کر سکے۔ انہیں گھر بھیجنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔

گزشتہ دنوں لاڑکانہ میں رینجرز کی ٹارگٹڈ کارروائی اور وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی کے فرنٹ مین اسد کھرل کی گرفتاری کی کوشش کے بعد جو صورت حال بنی قائم علی شاہ کی حکومت اس کو بھی ٹھیک طریقے سے ہینڈل نہیں کر سکی جس کی وجہ سے پارٹی قیادت ان سے ناراض تھی ۔

قائم علی شاہ کے بغیرسوچےجارحانہ شارٹس
زندگی کی آٹھویں دہائی میں قدم جمانے والے ،پیپلز پارٹی سے وابستگی کی نصف سنچری مکمل کرنےوالے بزرگ لیکن چست جیالے قائم علی شاہ بحیثیت وزیر اعلیٰ ایک نوجوان کی طرح ایکٹونظر آئے۔

ایک ڈیڑھ ماہ میں کراچی کا لُک بدلےگا یا نہیں لیکن چند دنوں میں وزیر اعلیٰ سندھ کا لک ضروربدل جائے گا،سندھ کی سیاسی پچ پر ٹک ٹک کرنے والے بزرگ سیاستدان نے ایک بار نہیں کئی بار بغیرسوچےجارحانہ شارٹ کھیلے۔

کئی بار توجلسوں میں ایسے روزدار نعرےلگائے کہ جنہیں دیکھ کر مخالفین نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔

گزشتہ ماہ سندھ اسمبلی میں نان اسٹاپ تین گھنٹے کھڑے ہو کر تقریر کر کے نوجوانوں کو کھلا چیلنج بھی دیااور کبھی تو نہ چاہتے ہوئے بھی قائم علی شاہ سہ سرخیوں کی زینت بن گئے۔
تازہ ترین