بیرسٹر اویس شاہ کے اغوا اور امجد صابری کے قتل سے لے کر منگل کے روز دو فوجی اہلکاروں کی شہادت تک تمام ہائی پروفائل کیسز کراچی کے سرویلنس سسٹم، یا نگرانی کے نظام پر ایک بڑا سوالیہ نشان بھی ہیں اور یہ پیغام بھی کہ شہر کے تمام اہم مقامات پر اعلیٰ معیار کے سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب لازمی ہوگئی ہے۔
لیکن زمینی حقیقت سپریم کورٹ میں کراچی بے امنی کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئی، جہاں بتایا گیا کہ شہر میں 50کروڑ کی روپے کی خطیر لاگت سے لگائے گئے کیمروں کی اہلیت صرف 2 میگا پکسلز ہے، ان کیمروں کی ویڈیو اتنی دھندلی ہوتی ہے کہ ان کے ذریعے کسی وارداتئے کی شناخت ممکن ہی نہیں۔
سپریم کورٹ نے اسے کھلی کرپشن قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔
دوسری جانب ڈی آئی جی ایڈمن غلام سرورجمالی بھی تصدیق کررہے ہیں کہ کیمروں کی تنصیب اور خریداری کے وقت قواعد اور ضوابط کو نظر انداز کیا گیا اور 2 ہزار200 غیرمعیاری سی سی ٹی وی کیمرے لگا دئیے گئے۔
حالت یہ ہے کہ شہر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں زیادہ تر خراب ہیں، متعدد چوری ہوچکے اور جو کیمرے کام کررہے ہیں وہ بھی ناقص ویڈیو کے باعث کسی کام کے نہیں۔
شہر کی اہم شاہراہوں کا جائزہ لیا جائے تو مین شاہراہوں اور چورنگیوں پر 6 سے 8 کیمرے نصب کئے گئے ہیں، جن میں سے اکثر خراب ہوچکے ہیں۔