• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دینی مدارس کے لئے ہفتے کو سندھ کابینہ میں ’’دینی مدارس ایکٹ2016‘‘ کے نام سے منظور کیے گئے نئے مسودہ قانون کی رُو سے صوبائی حکومت اگر یہ محسوس کرے کہ کسی مدرسے کی وجہ سے سماجی امن کو خطرہ لاحق ہے تو وہ فوری طور پر مدرسے کو بند کرسکے گی جس کے لیے مدرسے کی انتظامیہ کو سماعت کا موقع دینا بھی ضروری نہیں ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تقاضے کی تکمیل کیلئے بنائے جانے والے اس قانون کے نفاذکے بعد تمام دینی مدارس کے لیے چھ ماہ کے اندر اس کے تحت رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگا جس کے مطابق محکمہ مذہبی امور کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی دینی مدرسے کی رجسٹریشن منسوخ کردے اور اس کا انتظام سنبھال لے تاہم اس پہلے مرحلے میں مدرسے کی انتظامیہ کو سماعت کا موقع دیے بغیر رجسٹریشن منسوخ نہیں کی جائے گی لیکن جو مدارس انتباہی اقدامات کے بعد بھی اصلاح نہیں کریں گے، انہیں انتظامیہ کا موقف سنے بغیر بند کیا جاسکے گا ۔ مسودہ قانون پر ممتاز علماء سے مشاورت کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے بعد مسودے کو حتمی شکل میں صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ بلاشبہ بعض مدارس فرقہ وارانہ منافرت اور بدامنی پھیلانے کا ذریعہ بنے ہیں لیکن دینی مدارس کی خدمات اس سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کی بھاری اکثریت معاشرے میں تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ میں نہایت قابل قدر کردار ادا کررہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے مدرسہ اصلاحات میں بھی مدارس مکمل تعاون کررہے ہیں اور ابھی پچھلے ہی مہینے وفاقی وزرات تعلیم اور اتحاد تنظیمات مدارس میں دینی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن پر اتفاق کے علاوہ طے پایا ہے کہ مدارس میں بھی جدید نصاب کے مطابق سائنسی مضامین، انگریزی اور پاکستان اسٹڈیز وغیرہ پڑھائے جائیں گے۔لہٰذاحکومت سندھ کو مدارس کے نئے قانون کو حتمی شکل دینے سے پہلے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء سے اطمینان بخش طور پر مشاورت کرکے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے حاصل کرنا چاہئے اور ایسی کسی قانون سازی سے مکمل طور پر گریز کرنا چاہئے جس سے بے انصافی کا تاثر قائم ہوتا ہو۔


.
تازہ ترین