• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افریقی قبیلہ جومگر مچھ اور دریائی گھوڑے کا گوشت کھاتا ہے

Africa Tribes Eat The Meat Of Crocodile And Hippopotamus
رفیع عباسی .....یوں تومگرمچھ اور دریائی گھوڑوں کا شمار کرئہ ارض کے خوں خوار جانوروں میں ہوتا ہے مگرافریقہ میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہے جس کی’’خوںخواری‘‘ کی ہیبت صرف مگرمچھوںپر ہی نہیں بلکہ دریائی گھوڑوں پر بھی طاری رہتی ہے۔

کینیا کے شمال مشرقی صوبے میں’’عظیم جھیلوں‘‘ کے علاقے ’’ترکانہ جھیل ‘‘کے گردو نواح میںیہ قبیلہ ’’ ایل مولو‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس قبیلے کے افراد کی مرغوب غذا مگرمچھ اور دریائی گھوڑے کا گوشت ہے ۔

یہ افریقہ کا سب سے مختصر قبیلہ ہے جوہزاروں سال سے آباد ہے۔جب انہوں نے یہاں اپنی بستیاں بسائیں تو اس وقت ان کی تعداد لاکھوں میں تھی ۔ اب یہ سمٹ کر اتنا چھوٹا ہو گیا ہے کہ صرف دو دیہات پر مشتمل ہے جس میں ایک کا نام ’اینڈری‘ اور دوسرے کا ’’الا‘‘ ہے۔

یہ خطہ دُور دُور تک بنجر اور بے آب و گیانظرآتا ہے۔واضح رہے کہ جھیل ترکانہ نمکین ہونے کے علاوہ انتہائی مضر صحت ہےکیوں کہ یہ چاروں طرف سے آتش فشانی چٹانوں میں گھری ہوئی ہےجہاںعموماً درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔

نمکین پانی کی زیادتی کی وجہ سے پھل، سبزیوں اور اناج کی کاشت ناممکن تھی۔ ابتداء میںجھیل میں اتر کر خود رو پودوں کی بیلوں سے بنائے گئے جال کی مدد سے مچھلیاں پکڑ نا شروع کیں۔

یہاںان کا واسطہ جھیل کے قدیم رہائشیوں،مگرمچھ اوردریائی گھوڑوں سے پڑا ۔ان سےمقابلہ کرنے کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے کافی جانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

مقابلے کے لیے انہوں نے جنگی حکمت عملی اپنائی اور کھجور کے تنوں کو جوڑ کر چھوٹی چھوٹی کشتیاںتیار کیں۔پھرخاص قسم کی لکڑ ی سے نیزے اور ہارپون تیار کر کے قبیلے کے جری افراد نے ان خطرناک جانوروں کو شکار کرنا شروع کیا۔

مچھلی کے گوشت کی جگہ مگرمچھ اور دریائی گھوڑوں کے گوشت سے پیٹ کی آگ بجھانے لگے۔ بعد میں یہ ان کی پسندیدہ خوراک بن گئی۔ ان جانوروں کاگوشت کھاتے ہوئےانہیں ہزاروں سال کا عرصہ بیت گیا ہے ۔

افریقہ میں ان جانوروں کی نسل کی معدومیت کے خطرے کے پیش نظر کینیا کے جنگلی اور آبی حیات کے محکمے کی طرف سے ان کا شکار ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔اس کے باوجود قبیلےکے لوگ چوری چھپے ان کا شکار کرتے ہیں۔

جب یہ کسی مگرمچھ یا دریائی گھوڑے کو مار کرلاتے ہیں تو قبیلے میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ مرد ناچتے، گاتے ہیں، جب کہ عورتیں کھانا پکانے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔

دریائی گھوڑے کومارنے والا شکاری قبیلے کا ہیرو ہوتا ہے ۔انعام کے طور پر اسے ایک خاص قسم کی کان کی بالی اورگلے کا نیکلس دیا جاتا ہے۔

ترکانہ جھیل کا زہریلا پانی پینے کی وجہ سے یہ زیادہ سے زیادہ 45سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیںاور اس مختصر زندگی میں بھی یہ ہڈیوں کی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں، جب کہ تیس سال کی عمر میں جسمانی ساخت ڈھلنا شروع ہوجاتی ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایل مولو کے لوگ نہ صرف خطرے میں ہیں، بلکہ ان کا منفرد کلچر بھی معدومیت کی طرف جارہا ہے۔ یہ لوگ تو یقینی طور پر کبھی نہ کبھی مٹ جائیں گے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کی قدیم ثقافت بھی ختم ہو جائے گی۔
تازہ ترین