• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی روایتی دستکاریوں کو عالمی سطح پر متعارف کرانے والی فنکارہ

فاضل جمیلی .... غیرملکی شاپنگ مالز میں سجی دکانوں میں ملکوں ملکوں کی ثقافتی جھلکیاں آنکھوں کو چکاچوند کرتی ہیں تو دل میں ایک کسک سی رہ جاتی ہے کہ کاش ان جگمگاتی دستکاریوں میںکوئی سندھی اجرک، کھڈی کا کام ،اونٹ کی کھال پرنقاشی، پھل کاری ،اسٹون کا کام ،کشمیری اور بلوچی کشیدہ کاری،کمالیہ کا کھدر ،پشمنیہ شالیں،کشمیری کوٹ ،چنری کے ملبوسات ،مٹی کے برتن ،گگو گھوڑے،پوٹری،نیلی نقاشی والے برتن ،لکڑی کا کام،ٹوکریاں ،چھابے،چنگیریںاور دستی پنکھےبھی کہیں دیکھنے کو مل جائیں۔

ایک عام پاکستانی تو یہ کسک دل میں لیے گھر کو لوٹ جاتا ہے لیکن یہی واقعہ کسی فنکار کے ساتھ پیش آئے تو وہ اس محرومی کو اپنی طاقت میں تبدیل کر لیتا ہے۔ایسا ہی کچھ انورمقصود کے اسٹیج ڈراموں میں کلیدی کردار ادا کرنے والی فنکارہ ثناخان نیازی کے ساتھ ہوا۔

دبئی میں شاپنگ کے دوران جب انہیں پاکستان کی بنی ہوئی کوئی ایک چیز بھی دکھائی نہ دی تو انہوں نے اسی لمحے یہ فیصلہ کر لیا کہ پاکستان کی روایتی دستکاریوں کو وہ عالمی سطح پر متعارف کروا کے دم لیں گی۔

ثنا خان نیازی نے اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ’’پیمونا‘‘ کے نام سے آن لائن فرنیچر ڈیزائن کی فرم تشکیل دی جہاں صرف اور صرف ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ اشیاء دستیاب ہیں۔

اپنی کہانی ثنا خان کچھ اس طرح بیان کرتی ہیں۔’’یہ محض ایک اتفاق ہے کہ میں دبئی میں اپنے گھر کےلیے کچھ خریداری کے لیے نکلی تھی۔میری عادت ہے کہ میں کچھ بھی خریدنے سے قبل ٹیگ ضرور دیکھتی ہوں کہ کونسی چیز کس ملک کی تیارکردہ ہے۔وہاں بھارت کی اشیاء تھیں ، یہاں تک کہ بنگلہ دیش کی بنی ہوئی چیزیں بھی موجود تھیں لیکن پاکستان کی کوئی ایک چیز بھی نہیں تھی۔مجھے معلوم تھا کہ پاکستان دستکاری کے شعبے میں اپنی مثال آپ ہے لیکن ہمارے دستکاریوں کی رسائی غیرملکی مارکیٹوں تک کیوں نہیں ہے؟ یہ ایک مشکل سوال تھا جس کا جواب میں نے ’’پیمونا‘‘ کی صورت میں دیا ہے۔‘‘

پاکستانی دستکار انتہائی باصلاحیت ہیں لیکن عالمی تقاضوں سے ناآشنائی کے باعث وہ ایسا فرنیچر تیارنہیں کرپاتے جو دیگر عالمی منڈیوں میں دیگر ملکوں کے بنے ہوئے فرنیچر کا صحت مندانہ مقابلہ کرسکے۔

اس کمی کو دور کرنے کے لیے ثناخان نیازی نے دستکاروں کے ساتھ مل کر روایتی دستکاریوں کو نہ صرف جلا بخشی ہے بلکہ ان کی مہارت کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک ایسا پلیٹ فارم بھی مہیاکردیا ہے جہاں وہ اپنے کام کی بدولت بہتر دام بھی کما سکتے ہیں اور ملک کا نام بھی روشن کرسکتے ہیں۔

’پیمونا‘ اس عہد کی تجدید ہے جس میں ہم چائے کے لیے ’’چینک‘‘ استعمال کرتے تھے۔گائوں کی ٹھنڈی چھائوں میں چارپائیوں پربیٹھ کر گپ شپ کرتے تھےاور کہیں دُور سے ڈھول بجنے کی آواز سنائی دیتی تھی تو دل ودماغ دونوں جھوم اُٹھتے تھے۔

’پیمونا‘ کے ساتھ کام کرنے والے ترکھان محمد اعظم کا کہنا ہے ’’پیمونا کے ساتھ میں نے نئی چیزیں سیکھی ہیں۔اس سے پہلے جو ہم کام کرتے تھے ، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کس معیار کا ہے۔اب میں اچھی طرح جان گیا ہوں کہ اعلیٰ معیار کا کام کیا ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب دنیابھر میں ہمارے کام کو پذیرائی مل رہی ہے۔‘‘
تازہ ترین