• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس پر نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی کے جوابات

Panama Leakes State Banknab And Secp Submits Explaination
آصف بشیر چوہدری ...پاناما لیکس پر نیب، ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اپنے اپنے جوابات دے دیئے ہیں،حکومتی ارکان کا کہنا ہے تمام ادارے تحقیقات کے لیے اپنا کام کر رہے ہیں ۔

چیئرمین ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پاناما پیپرز میں نام آنے والوں کے گوشواروں میں مطابقت نہ ہوئی تو قانونی کارروائی کی جائے گی،کارروائی ثبوتوں پر کر تے ہیں، اخباری لیکس پر نہیں۔

حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ تمام ادارے تحقیقات کے لیے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں ۔

چیئرمین ایف بی آر نے پی اے سی کو بتایا کہ جن 444پاکستانیوں کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں ان میں سے اب تک 221 کو نوٹس بھیج دیے ہیں، جن کے اثاثے گوشواروں سے مطابقت نہ رکھتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

تحریک انصاف کے شفقت محمود نے کہا کہ ایف بی آر بتائے کہ پاناما پیپرز کے انکشاف کے 5ماہ بعد نوٹسز کیوں جاری کیے؟

سیکریٹری خزانہ وقار مسعود نے بتایا کہ پاناما حکومت کو پاکستانیوں کی تفصیلات فراہم کرنے کے حوالے سے فائل بھجوائی ہے، وہ ابھی تک آف شور کمپنیوں کی تفصیل نہیں دے رہے۔

ایس ای سی پی کے چیئرمین ظفر حجازی نے کہا کہ رجسٹرڈ پاکستانی کمپنیوں نے آف شور کمپنیوں میں 85 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے تاہم کسی بھی رجسٹرڈ کمپنی کی پاناما میں سرمایہ کاری نہیں۔

گورنر اسٹیٹ بینک اشرف وتھرا نے مؤقف اپنایا، اسٹیٹ بینک کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں، تاہم مشکوک ٹرانزیکشنز حساس اداروں سے شیئر کی جاتی ہیں، اسٹیٹ بینک کے پاس قانونی طور پر بیرون ملک بھیجے گئے پیسوں کا ریکارڈ ہوتا ہے، غیر قانونی طور پر بھیجی گئی رقوم کا نہیں۔

چیئرمین نیب چوہدری قمرالزمان نے کمیٹی کو بتایا کہ ثبوت موجود ہوں اور جرم ثابت ہوتا نظر آئے تو نیب کارروائی کرتا ہے، محض اخباری لیکس پر نہیں،دوسرے اداروں کی تفتیش کے بعد نیب کوئی کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گا۔

پی ٹی آئی کے عارف علوی نے کہا کہ آپ تو اخباری خبروں اور محض شبہ پر بھی لوگوں کو بند کر دیتے ہیں ، جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ انہیں قانون کے تحت چلنا ہے، لامحدود اختیارات نہیں رکھتے۔

ڈی جی ایف آئی اے املیش خان نے کمیٹی ارکان کے استفسار پر کہا کہ ایف آئی اے کسی پبلک آفس ہولڈر کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتا۔

کمیٹی نے تمام اداروں کو پاناما پیپرز پر کاروائی کی پیش رفت سے آگاہ کرنےکے لیے ایک ماہ کی مہلت دیتےہوئے اجلاس ملتوی کر دیا،وفاقی سیکریٹری قانون نے کہا کہ آرٹیکل 203کے تحت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا پانامہ معاملے پر اجلاس ہی غیر قانونی ہے۔

اجلاس کے بعد میڈیا سےگفتگو میں سید خورشید شاہ نے کہا کہ پاناما پیپرز میں نام آنے والے کسی پاکستانی کو کمیٹی اجلاس میں نہیں بلایا جائے گا۔

اجلاس میں ایک موقع پر تلخی بڑھی تو شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ ماحول بہتر کرنے کے لیے ایف بی آر والے یہ بتائیں کہ جب ایان علی کو پکڑا تو ان کی نظر ماڈل گرل پر تھی یا رقم پر،اس پر شرکاء مسکرا دیئے۔
تازہ ترین