• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سارک کے خیال نے 50 میں جنم لیا،85 میں وجود میں آئی

Saarc Came Into Existence In 1985
ساگر سہندڑو...جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان علاقائی تعاون تنظیم بنانے کا خیال 1950ء میں اٹھنے لگا لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اگلے 20سال تک جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان تعاون اور رابطوں کا کوئی منظم سلسلہ نہ بن سکا۔

ستر کی دہائی کے بعد بنگلادیشی صدر ضیاء الرحمان کے ذہن میں جنوبی ایشیائی ممالک کے آپسی تعلق کے حوالے سے ایک علاقائی تنظیم کے قیام کا خیال آیا، ضیاء الرحمان نے 1977ء میں بھارت کا دورا کیا، جس دوران انہوں نے یہ خیال اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم موراجی ڈیسائی کے ساتھ شیئر کیا، اسی سال بنگلادیشی صدر نیپال کے دورے پر پہنچے جہاں انہوں نے نیپالی بادشاہ بریندرا کو اپنے خیال سے آگاہ کیا۔

ضیاء الرحمان نے تمام جنوبی ایشیائی ممالک کے سربراہوں کو علاقائی تنظیم کے خیال کے حوالے سے خط لکھ کر آگا ہ کیا جس کے بعد جنوبی ایشیاکے 7ممالک کے سربراہان پہلی بار اپریل 1981ء میں کولمبو میں اکٹھے ہوئے اور ٹھیک چار سال بعد ڈھاکا میں 7 سے 8 دسمبر 1985 ءمیں جنوبی ایشیائی ممالک کے ہونے والے اجلاس میں سارک تنظیم کا بنیاد رکھا گیا۔

سارک تنظیم کے معاہدے کے لیے بنگلادیش کے صدر حسین ارشاد، بھوٹان کے بادشاہ جگمی سنگئے، پاکستان کے صدر ضیاء الحق، بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی، نیپال کے بادشاہ بریندرا شاہ، سری لنکن صدر جی آر جے وردھنے اور مالدیپ کے صدر مامون گیون نے دستخط کئے۔

سارک کو علاقے کی ترقی، خوشحالی، مضبوطی کے لئے قائم کیا گیا، سارک کا مقصد جنوبی ایشیائی ممالک کے آپسی تعلق میں مضبوطی پیدا کرنا تھا جبکہ اسی تنظیم کو جنوبی ایشیا کے خطے کی ثقافت و تہذیب کو فروغ دینے سمیت علاقائی بہتری کے لیے استعمال کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے آج تک سارک تنظیم نے خطے میں امن اور ترقی کے لیے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں دیا ہے۔

سارک کی تشکیل کے وقت اس کے 7 ارکان تھے، 2007ء میں نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس کے دوران بھارت کی فرمائش پر افغانستان کو ممبرشپ دی گئی جس کے بعد اس کے ممبر ممالک کی تعداد بڑھ کر 8ہوگئی، سارک کے ممبر ممالک میں بھارت، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، مالدیپ اور افغانستان شامل ہیں۔

سارک تنظیم کا مرکزی سیکریٹریٹ نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں16 جنوری 1987ء کو بنایا گیا جس کا افتتاح نیپال کے بادشاہ بریندرا نے کیا، جبکہ اس تنظیم کے ذیلی سیکریٹریٹ تمام ممبر ممالک میں موجود ہیں جس میں سے زراعت سے متعلق مرکز سری لنکا کے شہر کولمبو میں قائم ہے جبکہ موسمیاتی تحقیق سے متعلق مرکز ڈھاکا، جنگلات ور ترقیاتی فنڈز سے متعلق مرکز تھمپو بھوٹان، قدرتی آفات اور دستاویزات سے متعلق مرکزنئی دہلی،ساحلی معاملات سے متعلق مرکز مالے، مالدیپ، انفارمیشن، تپ د دق اور ایڈز سے متعلق مرکز کٹھمنڈو، نیپال، توانائی اور افرادی قوت سے متعلق مرکز اسلام آباد اور ثقافت سے متعلق مرکز کولمبو سری لنکا میں قائم ہے۔

سارک کے 1985 ءسے لیکر 2014ء تک 18 اجلاس ہوچکے ہیں جب کہ آئندہ ماہ نومبر میں اسلام آباد میں سارک کا انیسواں اجلاس منعقد ہونا تھا جو فی الحال ملتوی کردیا گیا ہے، پاکستان میں 2004ء کے بعد یہ پہلا سارک سربراہی اجلاس ہونا تھا جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ملتوی کیا گیا جبکہ اس سے پہلے بھی پاکستان میں 1988ء میں بے نظیر بھٹو اور 2004ء میں ظفراللہ جمالی کی سربراہی میں سارک سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین