• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Crisis Of Pml N Government
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ایک بار پھر بحران کا شکار ہے اور اس کے مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ٹی وی اینکر اور سیاسی تجزیہ نگار جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہیں۔ عمران خان ان کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ اس بار کہانی کا محور پاناما پیپرز ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کا خاندان اس کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔

الزامات سنگین جارحانہ ہیں جن کا تعلق لوٹ مار اور کرپشن سے ہے۔ عوام وہی سننا چاہ  رہے ہیں جو وہ پہلے سے مانتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ الزام لگانے والے اور الزام علیہ دونوں آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ کوئی بھی فریق حقیقی احتساب نہیں چاہتا۔ یہ بات بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ ٹی او آرز پر عدم اتفاق کے باعث کوئی پیش رفت نہ ہو سکی جس کی وجوہات سب کے سامنے ہیں۔

تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں محض نواز شریف کا احتساب چاہتی ہیں جبکہ حکومت کا اصرار ہے کہ احتساب کا دائرہ کار وسیع ہونا چاہیے تاکہ ندامت کا سامنا وہ اکیلے ہی نہ کریں۔

ن لیگ چاہتی ہے کہ احتساب کے دائرہ میں قرضے معاف کرانے والے اور آف شور کمپنیوں کے مالکان بھی آئیں، چاہے ان کا نام پاناما پیپرز میں آیا ہے یا نہیں۔ غیر دستاویزی ثبوتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے دستاویزی ثبوتوں کی بات کی جائے تو وزیراعظم کے دو صاحبزادوں اور صاحبزادی کے نام چار آف شور کمپنیاں ہیں۔ حسن نواز اور حسین کے نام آف شور کمپنیوں سے زیادہ پیچیدگی اس لئے پیدا نہیں ہوتی کہ یہ دونوں بیرون ملک کاروبار کرتے ہیں اور پاکستان میں ان پر ٹیکس کا اطلاق نہیں ہوتا البتہ مریم نواز کے نام آف شور کمپنیوں کی وجہ سے ان کے شوہر کیپٹن صفدر قومی اسمبلی کی نشست کیلئے نااہل ہو جائیں گے۔

دستاویزی ثبوتوں کی موجودگی میں مریم نواز کیلئے بیرون ملک آف شور کمپنیوں کی ملکیت سے انکار ممکن نہیں۔یہ جملہ   ضرورت کے تحت  حذف کیا جاسکتا ہے،مریم نواز ذاتی طور پر فلیٹس کی مالک نہیں ہیں  بلکہ اس معاملے میں وہ صرف حق استفادہ رکھتی ہیں۔تاہم یہ ثابت کرنا کہ بیرون ملک اثاثوں کو اپنے گوشوارے میں ظاہر کرنا قانونی طور پر لازمی ہے ایک مشکل مرحلہ ہے۔

شریف خاندان نے تاحال ایف بی آر کی جانب سے موصول ہونے والے ایف بی آر کے نوٹس کا جواب نہیں دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شریف خاندان کے قانونی مشیروں کو اس ضمن میں مشکل پیش آ رہی ہے جبکہ یہ کہنا کہ ایف بی آر کو حکومت کی جانب سے کسی اشارے  کا انتظار ہے  قطعی طور پر درست نہیں۔

یہ طے شدہ امر ہے کہ ان آف شور کمپنیوں کی بدولت کک بیکس وصول کرنے کو ثابت کرنا مشکل کام ہے۔ پاناما پیپرز سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ شریف خاندان کے لندن میں چار فلیٹس ہیں اس کے علاوہ ان آف شور کمپنیوں کے نام پر کوئی کاروبار یا بینک اکائونٹ نہیں ہے مگر حکمران خاندان کے افراد کے متضاد بیانات نے اس معاملہ کو الجھا دیا ہے اور اب اس کا دفاع مشکل ہے اگر یہی کلیہ عمران خان پر لاگو کیا جائے تو ان پر بھی یہی الزامات ہیں۔

دی نیوز کے احمد نورانی کی تحقیق کے مطابق عمران خان اس میدان کے سرخیل ہیں۔ نیازی سروسز لمیٹڈ نام سے آف شور کمپنی 1983 میں قائم کی گئی۔ اگر مریم نواز کے نام پر قائم آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں فلیٹس خریدے گئے تو یہی کام نیازی سروسز لمیٹڈ کے ذریعے کیا گیا اور یہ طریقہ ٹیکس بچانے کیلئے اختیار کیا گیا لہٰذا جب آف شور کمپنیوں کے ضمن میں انکوائری ہو گی تو اس کی زد میں شریف خاندان کے ساتھ عمران خان بھی آئیں گے لیکن فرم جرم عائد ہونے پر زیادہ نقصان شریف خاندان کا ہو گا کیونکہ وہ اقتدار میں ہے۔

سول ملٹری تعلقات میں تنائو نے وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبے میں موافقت پیدا کر دی ہے۔پاکستان میں ہر آمر نے کرپشن کی آڑ میں ہی حکومت کا تختہ الٹایا ہے،پرویز مشرف اس کی آخری مثال ہیں جنہوں نے کرپشن کے خاتمہ کے نام پر ایسے سیاستدانوں کی وفاداریاں حاصل کیں جن کا اپنا دامن کرپشن سے داغدار تھا،حکومت پاناما پیپرز کے معاملہ میں مختلف وجوہ کی بنا پر تاخیری حربے آزما کر بے گناہی کا دعویٰ  کر سکتی ہے۔

بہرحال دو بدو لڑائی جاری ہے،  نواز شریف اور عمران خان قومی اداروں کو مضبوط کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں ،نواز شریف کو خود کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان کی آخری کوشش یہی ہے کہ وہ نواز شریف کوکسی طرح  ان کے عہدے سے ہٹا نے میں کامیاب ہو جائیں، اس لڑائی میں نقصان عوام کا ہےاور سکرپٹ رائٹر بڑی باریک بینی سے ساری صورتحال کا مشاہدہ کر رہے ہیں تاکہ کسی مناسب وقت پر ضروری اقدام کر سکیں۔ 
تازہ ترین