• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر عاصم، انیس قائمخانی، رؤف صدیقی اور عثمان معظم کی ضمانتیں منظور

Dr Asim Anis Kaimkhani Rauf Siddiqui And Usman Moazzam Bailed
سندھ ہائی کورٹ نے دہشت گردوں کو علاج معالجے کرانے سے متعلق سابق مشیربرائے پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین، پی ایس پی رہنما انیس قائم خانی، متحدہ رہنما روف صدیقی اور پاسبان رہنما عثمان معظم کی فی کس 5,5لاکھ کے عوض ضمانتیں منظور کر لی ہیں۔

عدالت نے چاروں درخواست گزاروں کو اصل پا سپو رٹ انسداددہشت گردی کی متعلقہ خصوصی عدالت کے روبرو جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے درخواست گزار و ں کو متعلقہ عدالت کی اجازت کے بغیر بیرون ملک جانے سے بھی روک دیا ہے۔

فاضل عدالت نے انسداد دہشت گردی کی متعلقہ عدالت کو ہدایت کی ہے کہ مقدمہ ترجیہی بنیادوں پر چلایا جائے اور 2ماہ کے اندر اندر مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔

منگل کو جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس عبدا لما لک گدی پر مشتمل بینچ نے درخواست ضما نتو ں کی سماعت کی۔ دوران سماعت درخواست گزاران کے وکلا انور منصور خان، لطیف کھوسہ، الیاس خان، محمد فاروق، قادر خان مندو خیل، شوکت حیات، ساجد محبوب شیخ، رانا خالد حسین، اسپیشل پبلک پراسیکوٹر،تفتیشی افسر ڈی ایس پی الطاف حسین، رینجرز کے قانونی افسر میجر اصغر صمدانی و دیگر پیش ہوئے۔

اس موقع پر پی ایس پی رہنما انیس قائم خانی کے وکیل الیاس خان نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ضمانت سے متعلق اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ انیس قائم خانی باہر آکر گواہوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیںجو درست بات نہیں، مقدمہ کے اہم گواہ ڈاکٹر یوسف ستار کے بیان کی تصدیق کسی گواہ نے نہیں کی ڈاکٹر یوسف ستار کا بیان صحیح ثابت کرنے کیلئے استغاثہ کے پاس ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔

متحدہ رہنما روف صدیقی کے وکیل شوکت حیات نےاپنے دلائل میں کہا کہ مقدمے میں 19 گواہوں کا ذکر کیا گیا مگر سابق تفتیشی افسر کے کسی گواہ نے روف صدیقی کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر یوسف ستار کے علاوہ کسی گواہ کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

دوران سماعت ڈاکٹر عاصم کے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور رینجرز نے جو بلز پیش کیے اس کا ریکارڈ اسپتال کے رجسٹر میں موجود نہیں، سابقہ تفتیشی افسر نے صرف ایک رخ پر تفتیش کی، منتظم عدالت کو ڈاکٹر عاصم کو نیب کے حوالے کرنے کا اختیار نہیں تھا، منتظم عدالت نے حتمی فیصلہ کرنے کے بجائے بادی النظر کا لفظ استعمال کیا، وکلا نے اپنے دلائل میں کہا کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی زندگی خطرے میں ہے اور وہ شدید بیمار بھی ہیں۔

اس موقع پر عثمان معظم کے وکیل نے کہا کہ بیٹے کی گمشدگی کی درخواست عدالت میں جمع کرائی تو رینجرز نے عثمان معظم کو حراست میں لے لیا، عثمان معظم کو رینجرز نے پہلے نوے روز تک حراست میں رکھا پھر مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔ مقدمے اور جے آئی ٹی میں عثمان معظم کا نام بھی شامل نہیں تھا، عثمان معظم کے نام کے ساتھ بتایا گیا کہ ذاتی اور پارٹی کے مریضوں کیلئے رعایت کراتے تھے۔ بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ عثمان معظم نے دہشت گردوں کا علاج کرایا۔ جبکہ مقدمہ کے پراسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں 19گواہوں کے بیانات موجود ہیں۔
تازہ ترین