• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال غیرت کے نام پر 5ہزار خواتین کا قتل

Every Year 5 Thousand Women Killed For Honor
ریاض الحق....آج پوری دنیا میں خواتین میں ہونے والے تشدد کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر تشدد کا شکار ہونیوالی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ ایسے اقدامات بھی اٹھانا ہے جس سے خواتین کی ناموس کی حفاظت کی جا سکے اور انہیں معاشرے میں نمایاں مقام دلایا جا سکے تاہم خواتین نا صرف معاشرتی تضاد کا شکار ہیں بلکہ وہ تشدد کے باعث معاشرے میں اپنا بنیادی کردار ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں جس کا اندازہ ان اعدادو شمار سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی بدستور دنیا کی 35فیصد خواتین ذہنی ،جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہیں ۔ دنیا میں سالانہ 5ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں جبکہ ملک میں خواتین پر تشدد میں 28فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایسی خواتین نا صرف تشدد کے باعث احساس محرومی کا شکار ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کے باعث ہمیشہ کے لئے احساس کمتری میں مبتلا رہتی ہیں ۔خواتین پر ہونے والے تشدد کے خلاف منائے جانیوالے عالمی دن کے حوالے سے جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل نے مختلف ذرائع سے جو اعدادو شمار حاصل کئے ہیں اس کے مطابق دنیا میں قتل ہونے والی خواتین کا 50فیصد اپنے شوہر کا نشانہ بنتی ہیں ۔

ایسی خواتین یا تو شوہر کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے کے باعث اختلافات کا نشانہ بنتی ہیں یا پھر یہ خواتین غیرت کے نام پر قتل کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں ۔یہ امر افسوسناک ہے کہ غیرت کے نام پر قتل نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں بڑھتے جا رہے ہیں جس کا اندازہ اقوام متحدہ کے ان اعدادو شمار سے بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں سالانہ 5ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں جبکہ اسکا 20فیصد یعنی ایک ہزار پاکستانی خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں ۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ برائے 2015کے مطابق ملک میں گزشتہ برس غیرت کے نام پر قتل کے 987واقعات ریکارڈ کئے گئے جس کے نتیجے میں 1096خواتین نشانہ بنیں۔ایسے زیادہ تر واقعات میں گھریلو ناچاقی،خواتین پر شک اور پسند کی شادی وجہ بنی ۔

عورت فائونڈیشن کی تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے اعدادو شمار کے مطابق ملک میں 2014کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں 28فیصد اضافہ ہوا اور ایسے واقعات 10ہزار سے بھی تجاوز کر گئے۔اس دوران 74فیصد تشدد کے واقعات یعنی 7548کے ساتھ پنجاب سرفہرست رہا جبکہ 14.3فیصد یعنی 1447کے ساتھ سندھ دوسرے ،7.3فیصد یعنی 736کے ساتھ خیبر پختونخوا تیسرے ،2فیصد یعنی 190کیسز کے ساتھ بلوچستان چوتھے ایک فیصد یعنی 140واقعات کے ساتھ اسلام آباد کے زیر علاقہ پانچویں اور صرف 5کیسز کے ساتھ فاٹا چھٹے نمبر پر۔

یہ امرافسوسناک ہے کہ مذکورہ عرصے کے دوران سب سے زیادہ یعنی 102فیصد واقعات جنسی ہراساں کے ریکارڈ ہوئے جبکہ زیادتی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات 59فیصد،تیزاب پھیکنے کے 51فیصد،غیرت کے نام پر قتل کے واقعات 47فیصد اور خودکشی کے واقعات میں 40فیصد اضافہ ہوا ۔

خواتین پر تشدد کے حوالے سے شعور اجاگر ہونے کے باوجود آج بھی تمام واقعات رجسٹرڈ نہیں ہوتے جس کا اندازہ ان اعدادو شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2014کے 10070کیسز میں سے صرف 73فیصد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکی جبکہ 27فیصد کیسز کے خلاف کسی قسم کی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جا سکی ۔

بلوچستان جسے دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ سمجھا جا تا ہے میں تمام 190کیسز کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جبکہ اس حوالے سے خیبر پختونخوا میں 80فیصد، پنجاب میں79فیصد،وفاق کے زیر علاقہ میں 77فیصد کیسز کے خلاف درخواستیں درج کی گئی لیکن ان کے بر عکس صوبہ سندھ میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں سے صرف 36فیصد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکی ۔

ایسڈ سروائورز فائونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ملک میں 2007سے 2015کے نصف تک خواتین پر تیزاب پھینکنے کے 1004واقعات ریکارڈ کئے گئے جس کے نتیجے میں 1231افراد متاثر ہوئے جسکا 70فیصد خواتین پر مشتمل تھا۔
تازہ ترین