• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی بی اے کا ڈی ٹی ایچ لائسنس نیلامی پر نظر ثانی کا مطالبہ

Pba Demanded Review Of The Auction Of Dth Licence
ڈی ٹی ایچ لائسنس کی نیلامی میں پیمرا کو ہر لائسنس پربنیادی قیمت سے 2ہزار گنا زائد یعنی 5 ارب روپے کی غیرمعمولی بولی نے میڈیا انڈسٹری کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرکے اہم سوالات اٹھادیےہیں، پوچھا جارہا ہے کہ کشمیر اور سی پیک پر جاری پروپیگنڈا وار میں ملکی میڈیا کو معذور رکھنے کی خبر پیمرا کے لیے خوشی کی بات ہے یا پریشانی کی؟

پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے میڈیا کو ڈی ٹی ایچ لائسنسز کی نیلامی کے عمل کو مسترد کرتے ہوئے اس پر نظر ثانی کا مطالبہ کر دیا ہے۔

ہائی کورٹ نے روکاتو سپریم کورٹ سے عارضی حکم نامے پر پیمرا نے ڈی ٹی ایچ کانیلامی کاعمل منعقد کرا دیا، پیمرا کے کنسلٹنٹس نے20 کروڑبیس پرائس رکھی توایک لائسنس کی تقریباً 5 ارب روپےآفرملی اور تین لائسنسز کی 15 ارب یعنی پیمرا کی طرف سے طے کردہ بیس پرائس سے 2 ہزار گنا زیادہ۔

جہاں ایک طرف پاکستان میں ٹیلی ویژن ناظرین کے لیے انتہائی مہنگی سروس ثابت ہو گی، وہیں اس منصوبے کے 15 برس تک چلتے رہنے پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

پیمرا نے ڈی ٹی ایچ لائسنسز کی بولی بھی ان کمپنیوں کی طرف سے منظور کی جن کا پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے کاروبار سے دورکا بھی واسطہ نہیں۔

حیرت کی بات یہ بھی ہےکہ دنیا بھر میں ڈی ٹی ایچ کاروبار کی کامیابی کی گارنٹی سمجھے جانے والے میڈیا گروپس کو پیمرا نے نیلامی کے عمل سے ہی باہرکردیا۔

بھارت میں 6 ڈی ٹی ایچ لائسنس ہیں جو 10 کروڑ روپے کی بنیادی قیمت پر صرف میڈیا اور کمیونیکیشنز کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو جاری کئے گئے اور وہ گزشتہ 12 برسوں سے بہترین سروس مہیا کر رہی ہیں۔

پاکستان میں کیبل انڈسٹری خوش ہے کہ جس انداز میں پیمرا نےلائسنسوں کی نیلامی کی اس سے یہ انڈسٹری جلد ناکام ہوکر اپنی موت آپ مر جائے گی؟

دنیا بھرمیں ٹی وی انڈسٹری براڈکاسٹرز اور ڈسٹری بیوٹرز پر مشتمل ہوتی ہےاور کہیں بھی براڈکاسٹرز کو ڈی ٹی ایچ اور کیبل کے کاروبار سے باہر نہیں رکھا جاتا۔

پیمرا کا میڈیا انڈسٹری کے خلاف جانبدارانہ رویے کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ ڈی ٹی ایچ لائسنسز کےاجراء کےلیے دو سال پہلے ہونے والے معاہدے جس کے تحت براڈ کاسٹرز نے لائسنس فیس کی مد میں 20 کروڑ بھی ادا کئے، آج تک ان لائسنسز کا اجرا نہیں کیا گیا، 6 سال بعد ان لائسنسز کو منسوخ کر دیاگیااور رقم بھی واپس نہیں کی گئی، یہ معاملہ اب بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

براڈکاسٹرز کی درخواست پر 22نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے 23 نومبر کو ہونے والی نیلامی کے عمل کو روکنے کا حکم دیا توپیمرا کےرجوع کرنے پر اسی روز سپریم کورٹ نےمشروط طور پر نیلامی کی اجازت دےکرلائسنسز کے اجرا کو لاہور ہائی کورٹ کے حتمی فیصلے سے مشروط کردیا۔

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری بھارت سے بہت پیچھے ہے جس کی وجہ براڈ کاسٹرز پر خاص تعداد میں ٹی وی چینلز رکھنے اور ٹی وی ڈسٹری بیوشن کاروبار سے دور رکھنے کی پالیسیاں شامل ہیں، کشمیر اور سی پیک کے منصوبے پراپیگنڈا وار اور پاکستان کو دنیا میں کمزور رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہوں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے موقع پر پاکستانی میڈیا کو راستے سے ہٹایا جانا چاہئے یا کہ اسے مزید مظبوط بنایا جانا چاہے؟
تازہ ترین