• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردم شماری سے سیاسی جمود میں تبدیلی آنے کا امکان

The Census Is Likely To Change In The Political Status
نورآفتاب.....مردم شماری کے نتیجے میں 2018ء کے عام انتخابات میں سیاسی جمود میں تبدیلی آنے کا امکان ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں اور گروپس کی قسمت آبادی کے اعداد و شمار سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ یہ اعداد و شمارقومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں اور حلقہ بندیوں کا تعین کریں گے۔

’’دی نیوز‘‘کے مطابق ،مردم شماری وفاقی قابل تقسیم پول کے تحت صوبوں کا حصہ، تازہ حلقہ بندیوں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں حتیٰ کہ وفاقی محکموں کے ملازمت کے کوٹے کا تعین کرے گی۔

اس وقت خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 35، فاٹا میں 12،اسلام آباد میں2، پنجاب میں 148، سندھ میں61 اور بلوچستان میں 14  ہے۔

خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد ایک کروڑ22لاکھ 66ہزار ایک سو 57(این اے 1سے این 135)، فاٹا میں 17لاکھ 38ہزار313(این اے 36 سے این اے 47) اسلام آباد 6لاکھ 25ہزار نو سو64(این اے 48اوراین اے49)، پنجاب 4کروڑ92لاکھ 59ہزار334(این اے50سے این اے 197)، سندھ 1کروڑ89لاکھ63ہزار 375(این اے 198سے این اے 258) جبکہ بلوچستان میں 33لاکھ 36ہزار659(این اے 259سے 272) ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت اور مسلم لیگ (ن) نے امن و امان کی صورتحال اور دیگر وجوہات کا بہانہ بنا کر مردم شماری میں تاخیر کی ہے جبکہ اس کا مقصد اپنے مضبوط سیاسی قلعوں پر اپنی اجارہ داری برقراررکھنا تھا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ دیہات سے شہری علاقوں میں آبادی کی نقل مکانی کے نتیجے میں سندھ میں کراچی میں آبادی میں نمایاں ہوا ہے۔ تازہ مردم شماری سے متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے اس لئے کہ ان دونوں جماعتوں کی سیاست کا مرکز ان شہری علاقوں پر ہے۔

یہاں یہ ذکرمناسب ہے کہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ 7دسمبرکو وزیراعظم کی منظوری کے ساتھ قومی مردم شماری کا بلیوپرنٹ پیش کریں اگر وہ اس میں ناکام رہے تو پھر اس سلسلے میں حکومتی موقف کی وضاحت کے لئے وزیراعظم کو طلب کیا جائے گا۔

پاکستان نے قبل ازیں 1998ء میں مردم شماری کرائی تھی اورقانون کے مطابق وفاقی حکومت کے لئے ہر دس سال بعد مردم شماری کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا2008ء میں مردم شماری کرائی جانی چاہئے تھی۔

رپورٹس کے مطابق ترقی یافتہ ممالک خواہ کچھ بھی ہو جائے،کوئی وقت ضائع بغیرمردم شماری ریگولر کرانے کو بہت اہمیت دیتے ہیں کیونکہ یہ آبادی کی ترقی کے لئے ملک کے وسائل کے منصفانہ استعمال کے لئے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر نجمہ حمید نے ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ ان کی حکومت مردم شماری کرانے کے لئے بہت سنجیدہ ہے مگر امن و امان کی صورت حال اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کی مدد کے بغیر مردم شماری نہیں کرائی جاسکتی۔

ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے سبب مردم شماری کے لئے بڑے پیمانے پر فوجی جوان تعینات کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ سوچنا بدقسمتی ہے کہ ن لیگ کبھی بھی مردم شماری نہیں کرانا چاہتی تھی، ہمیں کوئی خوف نہیں اور ہم جلد از جلد مردم شماری کرانا چاہتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے اس نمائندے سے گفتگو میں کہا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے بعض واضح وجوہات کی بنا پر مردم شماری کرانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔

علاوہ ازیں بعض وہ مذہبی جماعتیں جن کے دیہی علاقوں میں سیاسی گڑھ ہیں، بھی خاموشی سے مردم شماری کی مخالف ہیں مگر اب ملک کو ترقی اور خوشحالی کی طرف سے لانے کے لئے مردم شماری کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔  
تازہ ترین