• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے دوست تازہ تازہ ریٹائر ہوئے ہیں۔ گو وفاقی حکومت میں ایڈیشنل سیکرٹری کے منصب تک پہنچے ، مگر کچھ اس قدر اللہ لوگ واقع ہوئے ہیں کہ زندگی بھر سرنیہوڑے نوکری اور صرف نوکری کرتے رہے ، ادھر ادھر ہرگز نہیں دیکھا سوحال وہی ہے ، جو ایک دیانتدار سرکاری ملازم کا ہوتا ہے ۔ اسلام آباد چھوڑ پورے پاکستان میں ایک انچ زمین کے بھی مالک نہیں ۔ آبائی گھر کو یوں نہیں لوٹ سکتے کہ دوبھائی پہلے ہی سے فروکش ہیں ۔ اسلام آباد میں ایک کنال کے سرکاری پلاٹ سے بھی محروم رہے کہ22ویں گریڈ تک رسائی نہ ہوسکی۔گزشتہ روز تشریف لائے، پریشانی کے عالم میں تھے ۔ بولے،سرکاری مکان کی چھ مہینے والی مدت ختم ہونے کو ہے ۔ پانچ مرلے کے مکان کا پورشن دیکھا ہے۔ مالک35ہزار مانگ رہا ہے ، جو ظاہر ہے دینا پڑے گا، کھلے آسمان تلے گزارہ تو ہونے سے رہا ۔ مزید فرمایا کہ 33 برس کی ملازمت کا جو صلہ سرکار نے کیش کی شکل میں دیا ہے ۔ اس سے اسلام آباد میں تو دو مرلے جگہ بھی نہیں مل پارہی ۔ سو شاہ اللہ دتہ کا سوچا ہے کہ وہاں جاکر آباد ہو جائوں۔ کنال بھر جگہ کا23لاکھ میں سودا تقریباً طے ہوگیا ہے ۔ جو باقی بچے گا ، اس سے جیسے تیسے چار کمرے ڈال کر بیٹھ جائیں گے ۔ یہ شاہ اللہ دتہ کیا ہے ؟ اسلام آباد والوں کو تو اچھی طرح پتہ ہے۔ سی ڈی اے کے باقاعدہ سیکٹرD-12کی حدود اس بستی کے ساتھ ملتی ہی نہیں ، بلکہ کچھ یوں گڈمڈ ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ D-12 کہاں ختم ہوتا ہے اور شاہ اللہ دتہ کہاں سے شروع، اس بستی سے راقم کی شناسائی کوئی پچیس برس قبل ہوئی تھی۔ وطن عزیز کے نامور مورخ اور آرکیالوجسٹ داکٹر دانی مرحوم اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں کو مہاتما بدھ سے منسوب قدیم غار دکھانے لے گئے تھے ۔ مذکورہ غار اور بڑ کے جناتی قسم کے درخت اسی بستی سے متصل اور مارگلہ کے مین قدموں میں واقع ہیں۔ مارگلہ کے دامن میں واقع اس بستی کا رخ آجکل دوطرح کی مخلوق کررہی ہے۔ ایک میرے دوست جیسے ضرورتمند مسکین اور دوسرے وہ جو پہاڑ کاٹ کر بستیاں بسانے کے چکر میں ہیں۔
خیر ہمارا یہ دوست23لاکھ میں کنال کا سودا کرکے بظاہر تو مطمئن تھا، مگر ایک چیز اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کنال کا جو پلاٹD-12میں چار کروڑسے کم نہیں، تواس سے جڑی بستی میں23لاکھ کا کیسے بک رہا ہے؟تحقیق کی تو عقدہ کھلا کہ یہ علاقہ تو مارگلہ ہلز نیشنل پارک کا حصہ ہے، جو جنگلات اور جنگلی حیات کیلئے مختص ہے اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال میں نہیں لایا جاسکتا۔ نیشنل پارکس تو رہے ایک طرف، دنیا بھر میں عام پارکوں کے حوالے سے بھی قوانین کس قدر سخت ہیں، اس کا اندازہ ان قارئین کو ضرور ہوگا ، جنہوں نے باہر کی دنیا میں کہیں نیشنل پارک قسم کی کوئی چیز دیکھ رکھی ہے۔ پختہ تعمیرات تودور کی بات ، وہاں تو آپ ایک اینٹ یا پتھر تک اندر نہیں لے جاسکتے اگر کسی وجہ سے چھوٹی موٹی تعمیر کی ضرورت پڑ بھی جائے، تواسے لکڑی سے بنایا جاتا ہے اور احتیاط کا یہ عالم کہ لوہے کے کیل بھی استعمال نہیں کئے جاتے، بانس کی پھانسوں سے کام چلایا جاتا ہے ۔ ادھر ہمارے ہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ مارگلہ میں سرنگ کی تعمیر کی منصوبہ بندی بھی نہایت شدومد کے ساتھ ہوئی تھی۔ ایک پراپرٹی ٹائیکون نے دعویٰ کیا کہ سرنگ کی تعمیر سے مارگلہ کی دوسری طرف ایک نیا اسلام آباد بسایا جا سکتا ہے۔ جس سے اس قدرہن برسے گا کہ پاکستان کے اندرونی بیرونی سب قرضے اُتر جائیں گے اور سرکارنے توحد ہی کردی، اسے پاک،چین اکنامک کاریڈور کا حصہ قرار دے دیا۔ انکشاف ہوا کہ سرنگ چھ رویہ سڑک پر مشتمل ہوگی ۔ اس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا اور سرکار کو ہدایت کی تھی کہ معاملہ پاک چین اکنامک کاریڈور کا ہو، یا کسی پراپرٹی ڈیلر کا اسلام آباد کو ہری پور تک لیجانے کا خواب ، مارگلہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اجازت ہرگز نہیں دی جاسکتی ۔ یہ ہدایت بھی کی گئی مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی جائے۔ اپریل 2015میں کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تھا۔ عدالت کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ کسی نہ کسی کو نوازنے کی کوشش کی جارہی ہے اور آنریبل جج نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا: اگر مارگلہ ہلز نیشنل پارک سے ایک پتھر بھی نکالا گیا تو اسے عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی تصور کیا جائیگا۔
عدالتیں تو یہی کچھ کرسکتی ہیں، سخت زبان میں دوٹوک فیصلے۔ مگر عملدرآمد تو متعلقہ اداروں نے ہی کرنا ہوتا ہے۔ اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہCDA اس ضمن میں اپنی ذمہ داری کو کہاں تک نبھارہا ہے ؟ اس کا جواب کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک پر قبضہ گروپوں کی یلغار بلا خوف وخطر جاری ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے تو ایک پتھر کی بات کی تھی۔ یہاں تو حکام کی آنکھوں کے عین سامنےمارگلہ کی پہاڑیوں کوبے دردی سے ادھیڑا جا رہا ہے ۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹ تو رہے ایک طرف، پوری پوری بستیاں بسائی جارہی ہیں اور ایکڑوں پر محیط فارم ہائوسز اس پر مستزاد ہیں۔ اسلام آباد کے حوالے سے سی ڈی اے کا طرزعمل بدقسمتی سے روز اوّل سے ہی معاندانہ رہا ہے۔ جو امانت انہیں سونپی گئی تھی، وہ اس کی حفاظت نہ کر سکے۔ کیپٹل کی زمین فری فار آل ٹھہری اور جگہ جگہ کچی بستیاں بسا دی گئیں۔ پورے پورے سیکٹرز میں اربوں، کھربوں کی پراپرٹی ناجائز طور پر تعمیر ہو چکی، جہاں لاکھوں لوگ آباد ہیں، جو ریاست سے بھی طاقتور ہیں اور جنہیں بے دخل کرنا حکومت کے بس کا روگ نہیں رہا۔ قصہ مختصر، اسلام آباد کا حال حلیہ بگڑ چکا اور سی ڈی اے خواب غفلت کا شکار۔ جب کبھی ایک آدھ روز کیلئے آنکھ کھلتی ہے، تو بلڈوزر لے کر کسی جانب نکل جاتے ہیں اور کارروائی کر آتے ہیں۔ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ آج ربع صدی پیشتر جب بنی گالا بسایا جارہا تھا، تو اس وقت بھی سی ڈی اے کی یہی حکمت عملی تھی۔ محض اشتہاروں اور اخباری بیانات پرزور، کہ مذکورہ جگہ نیشنل پارک کا حصہ ہے، بستی کا فضلہ راول جھیل کو آلودہ کر دے گا… وغیرہ وغیرہ اور جب اس کی عین ناک کے نیچے ایک سے ایک نامی گرامی لوگوں نے بنی گالا میں محلات کھڑے کرلئے، تو سب جائز ہوگیا۔ ماضی کی ان کوتاہیوں کے حوالے سے آج کل سی ڈی اے کے اہلکاروں کی پکڑ دھڑ ہو رہی ہے۔ برسوں کے ریٹائرڈ، صاحب فراش لوگوں کو ہتھکڑیاں لگ رہی ہیں۔ سرکار کی ان ’’پھرتیوں‘‘ پر حیرت ہوتی ہے۔ جس وقت یہ ناجائز قبضے اور تعمیرات ہو رہی تھیں، اس وقت وہ کہاں تھی؟ اس حوالے سے کوتاہی اور کرپشن کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ کیا اس کے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے 10/20 برس کا انتظار ضروری ہے؟ ۔ رہا یہ سوال کہ مارگلہ ہلز کو بچانا کیوں ضروری ہے؟ تو وہ اس لئے کہ یہ اسلام آباد کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ قدرت کا یہ عطیہ بڑی حد تک ہم پہلے ہی برباد کر چکے۔ شہری حدود میں واقع فیکٹو سیمنٹ فیکٹری اور کرشرز نے بہت کچھ ختم کر دیا اور جو بچ گیا ہے، اگر اس کے بارے میں ہم نے اپنا مجرمانہ طرزعمل نہ بدلا، تو اسلام آباد کی اس قدرتی فصیل کا حسن شاید قصۂ پارینہ بن کر رہ جائے۔ ایک عالمی فورم نے پچھلے برس اسلام آباد کو دُنیا کا دُوسرا خوبصورت ترین دارالحکومت قرار دیا تھا، تو بعض لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا جس پر ایک غیرملکی سفارتکار نے کہا تھا کہ ’’اسلام آباد میں اور کچھ ہو نہ ہو، محض مارگلہ ہی اُسے دُنیا کا خوبصورت ترین کیپٹل قرار دیئے جانے کیلئے کافی ہے۔‘‘
روئیداد خان معمر بیورو کریٹس میں سے ہیں۔ ملازمت کے دوران ایک سے ایک اہم عہدہ پر فائز رہے۔ مارگلہ ہلز سوسائٹی کے بانی صدر ہیں۔ راقم سمیت اسلام آباد کے ہزاروں باسیوں نے نیچر کے اس شیدائی کی محبت میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو محفوظ بنانے کیلئے واکس Walks بھی کی ہیں اور مظاہرے بھی۔ آج کل وہ صاحب فراش ہیں ۔ کیا شہر کی 20 لاکھ کی آبادی میں کوئی ایک بھی توانا آواز نہیں، جو موصوف کے مشن کو لے کر آگے بڑھے اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو تباہی سے بچانے کیلئے کچھ کر سکے۔
تازہ ترین