• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، ہوٹل میں آتشزدگی ، ہلاکتوں کا مقدمہ تاحال درج نہیں ہوسکا

Karachi Regent Plaza Fire Deaths Was Not Registered Yet
افضل ندیم ڈوگر ....کراچی میں شاہراہ فیصل پر بڑے ہوٹل میں خوفناک آتشزدگی کے واقعہ کو تین دن گزرنے کے باوجود پولیس نے بارہ افراد کی ہلاکت کا مقدمہ درج نہیں کیا۔

ایف آئی آر کے اندراج کی تمام تیاری کے باوجود متعلقہ پولیس اپنے اعلیٰ حکام کے شدید دباؤ کی وجہ سے اس قانونی معاملے میں مجرمانہ غفلت کر رہی ہے۔

پولیس کے مطابق آتشزدگی حادثہ یا تخریب کاری تھی یہ ایک الگ تحقیقاتی معاملہ ہے اس کے تعین کے لئے وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر تحقیقاتی ٹیم کام کر رہی ہے لیکن ایک درجن قیمتی جانوں کے ضیاع اور درجنوں افراد کے زخمی یا متاثر ہونے کا جو واقعہ پیش آچکا ہے قانون کے مطابق اس کی ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 319 اور 322 کے تحت ہوٹل کے مالکان اور انتظامیہ کے خلاف بنتی ہے جو تیار کی جاچکی ہے۔

اس واقعے کی تفتیش ایس پی صدر کررہے ہیں جنہیں اپنے کام میں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے مبینہ مشکلات کا سامنا ہے۔ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق یہ واقعہ دہشت گردی، تخریب کاری یا حادثہ تھا اس کا فیصلہ تو تحقیقات کے بعد ہوتا رہے گا، ہوٹل میں آگ حادثاتی طور پر لگی یا تخریب کاری کے نتیجے میں لگائی گئی۔

دونوں صورتوں میں ہوٹل کے اندر انسانی جانوں کے بچاؤ کے لیے ممکن حفاظتی اقدامات کا فقدان تھا کیونکہ اسی وجہ قیمتی جانوں نقصان ہوا۔

پولیس ذرائع کے مطابق ہوٹل میں دھویں بھرنے کی صورت میں اسموک الارم موجود نہیں تھے، خطرے سے آگاہی کے الارم بھی سیکورٹی اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں۔ آتشزدگی کی صورت میں ہوٹل کے کمروں کی کھڑکیاں کھلنے کا انتظام نہیں تھا۔

عمارت کے اندر ایمرجنسی راستہ یا فولڈنگ سیڑھیاں موجود نہیں تھیں اگر تھیں تو وہ سیکورٹی کے نیم الاقوامی اسٹینڈرڈ کے مطابق نہیں تھا، ہوٹل میں فائر فائٹنگ کا انتظام بین الاقوامی میعار کا نہیں تھا محض خانہ پری کے لئے آلات موجود تھے۔

آگ بجھانے کے لئے جو مخصوص کیمیکل ہونے چاہئیں تھے وہ موجود نہیں تھے۔ آتشزدگی کی صورت میں تازہ ہوا کے اقدامات کا بھی فقدان تھا۔ یہ تمام معاملات اس طرح کے مقامات پر انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف قرار دیئے جاتے ہیں جس کی سو فیصد ذمے داری ہوٹل کے مالکان اور انتظامی افسران ہوتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مقدمہ کا اندراج فوری طور پر کیا جانا چاہیے تھا متعلقہ پولیس کیس تیار کرکے بیٹھی ہے لیکن مبینہ طور پر پولیس کے اعلی حکام نامعلوم دباؤ کے تحت مقدمہ درج نہیں کرنے دے رہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ سندھ کی قائم کردہ کمیٹی اور دیگر تحقیقاتی ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔
تازہ ترین