کراچی سرکلر ریلوے کو پاک چین راہداری کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر رواں سال اس منصوبے پر کام شروع ہوجائے گا جس سے کراچی والوں کو بہتر سفری سہولیات میسر آئیں گی، ساتھ ہی وہ گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کر پائیں گے۔
کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز1964 میں ہوا اور 1984 تک یہ متحرک متبادل نظام کے طور پر کام کرتا رہا ۔ بعد میں مسافروں کی تعداد میں کمی اور مالی نقصانات کے باعث منصوبے کو 1999 میں بند کردیا گیا ۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور کسی متبادل نظام کی تلاش نے حکومتوں کو کے سی آر کے منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے پر مجبور کیا اور بالا آخر سترہ سال بعد پاک چین اقتصادی راہداری میں اسے شامل کر لیا گیا۔
سروے کے مطابق 2030 میںآبادی کے لحاظ سے کراچی دنیا کا دوسرا بڑا شہر ہوگا اور اس کے لئے ماس ٹرانزٹ کا نظام ضروری ہے جس میں مین سرکلر ریلوے بھی شامل ہے۔ سرکلر ریلوے کے آغاز سے سات لاکھ افراد روزانہ اس سے مستفید ہوں گے۔
کراچی سرکلر ریلوے360 ایکٹر پر محیط ہوگا تاہم انتظامیہ کے لئے سب سے مشکل مرحلہ اس کی راہ میں آنے والی تجاوزات ہوں گی جو 67 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں۔
ان میں سے 4653 پکی تعمیر ات ہیں جس میں بڑی تعداد گھروں کی ہے۔ منصوبے کے تحت چلنے والی ٹرینیں تیئس اعشاریہ چھیاسی کلومیٹر سطح زمین سے اوپر اور باقی سفر زمین پر کریں گی۔منصوبے کے تحت 290 ٹرینیں چلیں گی تاہم ایک مکمل چکر 66 منٹوں میں مکمل ہوگا۔
کراچی سرکلر ریلوے پر دو ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم خرچ ہوگی جسے آسان قرض کے ذریعے حکومت ادا کریگی۔