• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دودھ میں خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کا سلسلہ جاری

Blending Of Harmful Chemicals To Milk Is Continued
دودھ میں خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کا سلسلہ جاری ہے، فیصل آباد اور لاہور میں فارملین، یوریا، نمک اور پانی کی ملاوٹ والا دودھ پکڑا گیا جبکہ کوئٹہ میں دودھ ٹیسٹ کرنے کی کوئی لیبارٹری ہی نہیں ہے۔

دودھ کے نام پر شہریوں کی رگوں میں زہر اتارنے کا کاروبار جاری ہے،لیکن اب پنجاب میں ملاوٹ کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا، پنجاب فوڈ اتھارٹی ایکشن میں آگئی،کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف لاہور اور فیصل آباد میں بڑی کارروائیاں کی گئیں ۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ٹیموں نے لاہور میں دو ہزار لیٹر اور فیصل آباد میں آٹھ سو لیٹر ناقص دودھ برآمد کر کے ضائع کردیا۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مطابق فیصل آباد میں دودھ لانے والے چالیس ٹینکرز کو چیک کیا گیا تو دودھ میں لاش محفوظ کرنے والا کیمیکل فارملین اور یوریا موجود تھا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر پی ایف اے شہباز سرور نے بتایا کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والے دو افراد کو حراست میں لیا ہے۔

ادھر کوئٹہ کے شہری بھی دودھ کے نام پر زہر پینے لگے،کوئٹہ سمیت صوبے میں ملک ٹیسٹنگ لیب ہی نہیں ہے، صوبائی حکومت نے فوڈ اتھارٹی تو بنائی مگر اسے فعال نہیں کیا،محکمہ صحت کے پاس دودھ چیک کرنے کے آلات نہیں ہیں ۔

ڈیری فارم ایسوسی ایشن کے مطابق کوئٹہ کے ڈیری فارموں سے دودھ فروخت کرنے والوں کو ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ لیٹر دودھ حاصل ہوتا ہے،لیکن شہر میں دودھ کی ضرورت تقریباً چار لاکھ لیٹر ہے،تقریباً ڈیڑھ سے دولاکھ لیٹر دودھ کی کمی شکار پور سے لائے گئے دودھ اور پائوڈرسے بنائے دودھ سے پوری کی جارہی ہے جو مضر صحت ہے۔

دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں دودھ کے ٹیسٹ کیلئے کوئی لیبارٹری نہیں ہے،محکمہ صحت اور محکمہ لیبر کے پاس جو آلات ہیں ان سے صرف دودھ میں موجود پانی کو چیک کیا جاسکتا ہے۔

بلوچستان حکومت نے ایک سال قبل بلوچستان خوراک کی چیکنگ کیلئے بلوچستان فوڈ اتھارٹی ضرور بنائی لیکن اسے فعال نہیں کیا گیا، اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اس اتھارٹی کا ڈی جی تک تعینات نہیں کیا گیا ہے، ڈی سی کوئٹہ کا کہنا ہے کہ جلد شہر میں مضر صحت دودھ کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔
تازہ ترین