کمسن بچی طیبہ پر تشدد کیس کے کرداروں راجا خرم اور ان کی اہلیہ نے اعتراف کیا ہے کہ طیبہ کے والدین کو12 ہزار روپے دے کر بچی کو گھر پر رکھا تھا۔
پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ طیبہ پر تشدد نہیں کیا، اس کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھا، طیبہ کے ساتھ اپنی بیٹیوں جیسا برتاؤ کیا، اس کے لیے ٹافیاں، چاکلیٹ اور جوس لاتا تھا، 16 سال سے عدلیہ سے وابستہ ہوں، کبھی کسی غریب پر ظلم کا سوچ بھی نہیں سکتا، طیبہ پر تشدد کی سوچ کی بھی مذمت کرتا ہوں۔
طیبہ تشدد از خود نوٹس کیس میں پولیس نے سپریم کورٹ میں تفتیش میں پیش رفت کی رپورٹ جمع کرا دی، ملزم جج راجا خرم علی خان نے پولیس کو بیان میں تمام الزامات کی تردید کر دی۔
ملزم ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے ابتدائی بیانات بھی رپورٹ میں شامل ہے۔
اعتراف میں راجا خرم علی خان نےطیبہ کو پیسوں کے عوض اپنے گھر پر رکھنے کا اعتراف کیا،تاہم طیبہ پر تشدد کے الزامات کی تردید کر دی۔
جج اور ان کی اہلیہ نے بیان میں کہا ہے کہ طیبہ کو اپنے ڈیڑھ سالہ بچے کی دیکھ بھال کے لیے کفالت میں لیا، اس کے والدین کو 12ہزار روپے ادا کر کے مزید امداد کا بھی کہا،طیبہ کو خوراک، رہائش، کتب مہیا کیں، بیٹیوں کی طرح برتاؤ کیا، گھمانے پھرانے بھی لے جاتا تھا۔
انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ طیبہ کو بخار بھی ہوا تو اس کا بہترین علاج کرایا،اس پر تشدد کی سوچ کی بھی مذمت کرتا ہوں،جس دن طیبہ کو چوٹ آئی وہ گھر پر نہیں تھی، تھانے میں اس کی گمشدگی کی رپورٹ بھی لکھوائی، اگلے روز بچی ملی تو اس نے بتایا سیڑھیوں سے گرگئی تھی۔
راجا خرم علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حساس نوعیت کے بڑے مقدمات میں فیصلے کرنے کے باعث بہت سے مافیاز ان کے خلاف ہیں، اپنے طور پر انکوائری کراؤں گا اور اصل حقائق سامنے لاؤں گا۔
راجا خرم علی خان کی اہلیہ ماہین ظفر نے بھی طیبہ پر تشدد کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔