• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ کوئٹہ انسانی حقوق کمیشن کی ’بے رحمانہ تحقیقات‘ کی سفارش

Quetta Human Rights Commissions Recommendation Merciless Investigation
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان نے سانحہ کوئٹہ کوانٹیلی جنس اورسیکیورٹی فورسز کی ناکامی قراردیتے ہوئے ’بے رحمانہ تحقیقات‘ کی سفارش بھی کردی۔

چیئرمین کمیشن جسٹس ریٹائرڈ علی نوازچوہان کہتے ہیں کہ کمیشن کے پاس سول کورٹ کے اختیارات ہیں،15 دن میں احکامات پرمبنی رپورٹ جاری کردیں گے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ علی نوازچوہان کا سانحہ کوئٹہ پر تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہنا ہے کہ اداروں سے پوچھا ہے سانحہ کوئٹہ پرانٹیلی جنس کی ناکامی کیوں ہوئی،بڑے سانحات کی مثال ہونے کے باوجود اتنی بڑی کوتاہی کیسے ہوئی،سانحہ کوئٹہ کے بعد وی وی آئی پیز کی آمدو رفت سے شدید زخمیوں کو اسپتال میں خون نہیں پہنچایا جاسکا ، ڈاکٹرز تھے نہ عملہ،ٹراما سینٹر سے سرجن غائب تھے، سانحے کے بعد ایک شخص ویڈیو بناتے ہوئے گھومتا پھر رہاہے وہ کون تھا؟ کیوں نہیں پکڑا گیا؟ پکڑاگیاتو کیا تحقیقات ہوئیں؟

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق میں پیش کردہ رپورٹ میں سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جو کچھ یوں ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین اور نیکٹا ایکٹ کو فوری نافذ کیا جائے، وزارت مذہبی امور انتہاپسندی اورمذہبی منافرت کے خاتمے متبادل بیانیہ کی تیاری فوری شروع کرے،سانحے کے بعد قانون نافذ کرنے اداروں کے فوری ردعمل کےحوالے سےایس او پیز اور باقاعدہ اصول وضع کیے جائیں،کسی بھی سانحے کے بعد جائے حادثہ اور اسپتالوں میں پروٹوکول اور وی آئی پیز کی آمد کے بارے اصول وضوابط وضع کیے جائیں۔

رپورٹ میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ میڈیکل عملے کی دستیابی اور ان کی سانحات کے بعد مستعدی کے تربیتی پروگرام فوری کرائے جائیں،تمام صوبوں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ فرانزک لیبز قائم کی جائیں،وفاقی وصوبائی حکومتیں شہداء وزخمیوں کو امدادی پیکیج کی فوری فراہمی کا طریقہ بنائیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیاگیاکہ سپریم کورٹ کے سوموٹو ایکشن لینے پربلوچستان کی صوبائی حکومت نے جوڈیشل انکوائری کمیشن بنانے کی مخالفت کی تھی، بلوچستان حکومت نے صوبائی انتظامیہ کا مؤقف نہ سننے اورتحقیقات کا موقع نہ ملنے پر اعتراض اٹھایاتھا، بلوچستان حکومت کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے جوڈیشل کمیشن سےصوبائی حکومت کی تحقیقات متاثر ہوسکتی ہیں، لہٰذا سپریم کورٹ اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نےبلوچستان حکومت کی استدعامسترد کردی،کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے بتایاکہ سانحہ کوئٹہ کاحملہ عمومی طرز کا تھا، یہ طریقہ کار ہزارہ قبیلے پر حملوں میں استعمال ہورہاہے،کوئٹہ حملہ روکنے کے اقدامات کیے جاسکتے تھے، مگر اس طرز کے حملوں پر اسٹڈی تک نہیں کی گئی ،تحقیقات میں پتہ چلا تھا کہ چمن کےلوگ ایسے واقعات میں ملوث ہیں، جن کا سراغ تک نہیں لگایا گیا۔

قائمہ کمیٹی نے کمیشن کی رپورٹ کو حکومتی قرار دیتے ہوئے آزادانہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔

واضح رہے کہ سانحہ کوئٹہ میں وکلاء سمیت 76افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تازہ ترین