• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فلسطینی صدر محمود عباس کی تین روزہ دورے پر اسلام آباد آمد، صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف سے ملاقاتوں اور فلسطینی سفارتخانے کی نئی عمارت کے افتتاح سمیت کئی مصروفیات نے عالمی برادری کو ایک بار پھر ان مسائل کی طرف متوجہ کیا ہے جو اقوام متحدہ کے قیام کے بالکل ابتدائی برسوں سے ناصرف حل کے منتظر ہیں بلکہ جن کی سنگینی میں گزرتے وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ عالمی ضمیر کے لئے امتحان کی حیثیت رکھنے والے یہ امور کشمیر اور فلسطین کے مسائل ہیں۔ مذکورہ مسائل کو جنم دینے اور پھر ان کے حل سے غفلت برتنے میں اگرچہ بعض عالمی طاقتوں کے کردار کو یکسر نظرانداز کرنا ممکن نہیں، تاہم جو دو ممالک اپنے کردار کے نسل پرستانہ پہلو کی بنا پر انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے ان مسائل کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین بنانے پر تلے ہوئے ہیں وہ کسی اعلیٰ انسانی قدر کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔ 1947میں برٹش انڈیا کی تقسیم سے قبل غیرمنقسم ہندوستان میں بسنے والی دو اقوام میں سے عددی اکثریت کی حامل قوم کی نمائندگی کرنے والی جماعت اگرچہ دنیا کو دکھانے کے لئے سیکولر ازم کا نعرہ لگاتی تھی مگر اس کی نسلی عصبیت رکھنے والی قیادت متحدہ ملک کی صورت میں دوسری قوم کے تحفظ کی ضمانت دینے پر کسی طور آمادہ نہ ہوئی جس کے نتیجے میں برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو علیحدہ ملک کے حصول کی جدوجہد کرنا پڑی۔ یہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کی مخلوط کابینہ کے مسلمان وزیر خزانہ نوابزادہ لیاقت علی خاں کے پیش کردہ قومی بجٹ میں دولت مندوں پر ٹیکس لگائے گئے تو مذکورہ قیادت کے لئے اپنی ہی نسل کے کچلے ہوئے طبقات کو استحصال سے بچانے کی تدابیر اس حد تک ناقابل قبول ہوئیں کہ ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں خود قیادت نے سبوتاژ کردیں۔ مشرق وسطیٰ میں جس انداز سے ایک خاص نسل کے لوگوں کو لاکر آباد کیا گیا اور مسلمان یا یہودی کی تفریق کو بہت کم ملحوظ رکھتے ہوئے مقامی لوگوں کو جس استحصال کا نشانہ بنایا گیا وہ جنوبی ایشیا کے حالات سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔ جبری فوجی قبضے، انسانی اقدار کی پامالی، نئی بستیوں کے نام پر آبادی کا تناسب تبدیل کرنے سمیت مذموم اقدامات کی ایک طویل فہرست مقبوضہ کشمیر اور بیت المقدس کے مقبوضہ علاقوں میں مماثل ہے۔ عالمی برادری نے کشمیری عوام اور فلسطینی عربوں سے کئی وعدے کئے ہیں مگر نہ تو کشمیری عوام سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا حق حاصل کر سکے نہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی طور پر متفقہ پیرا میٹرز، 1967سے قبل کی سرحدوں اور القدس کو دارالحکومت رکھنے کی بنیاد پر ایک موزوں اور آزاد ریاست مل سکی۔ وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں منعقدہ پریس کانفرنس میں فلسطینی صدر محمود عباس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کا اعادہ کر کے اور وزیراعظم نوازشریف نے فلسطین کی 1967سے قبل کی سرحدیں بحال کرنے کا مطالبہ کرکے درست طور پر ان دونوں سلگتے ہوئے مسئلوں پر فوری توجہ دینے کی ضرورت اجاگر کی۔ اہم بات یہ ہے کہ نئی دہلی اور تل ابیب بھی حقائق کا ادراک کریں۔ اس ضمن میں اسرائیل اور بھارت کے دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے آمادہ کریں۔ نئی دہلی کے حکمرانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھیجے گئے دہشت گردوں کا صفایا ہونے کے بعد کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن جیسی دھمکیاں اور میزائل سازی کی نئی دوڑ کی بجائے بامقصد بات چیت ہی درست راستہ ہے۔ پاک فوج کے سربراہ واضح کر چکے ہیں کہ اب کسی بھی قسم کے دہشت گردوں کی وطن عزیز میں واپسی کی گنجائش نہیں۔ فوجی ترجمان کا یہ بیان بھی آچکا ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے۔ اس لئے پاکستان پر دبائو ڈالنے کے ہتھکنڈے کارگر نہیں ہوں گے۔ باوقار بات چیت ہی مناسب راستہ ہے اور دوست ملکوں کو اسی سمت میں سہولت کاری پر توجہ دینی چاہئے۔

.
تازہ ترین