• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی شپ یارڈ سے ریئر ایڈمرل حسن ناصر شاہ کا ایک دفعہ پھر بلاوا آیا کہ اِس دفعہ وہ پاکستان بحری حدود کی حفاظت کیلئے ایک پیٹرولنگ جہاز بنانے کی بنیاد 27 جنوری 2017ء کورکھنا چاہتے ہیں جس کے مہمانِ خصوصی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین ہونگے۔ واضح رہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے تحفظ میں جت گیا ہے، پہلے اس نے زمینی علاقہ کو محفوظ کرنے کیلئے ایک فورس تیار کی اِس کے بعد 13دسمبر 2016ء کو بحری ٹاسک فورس 88ا قیام عمل میں لایا گیا۔ اِس تقریب میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور چیئرمین جوائنٹ اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات محمودبھی موجود تھے، بڑی پُروقار تقریب تھی، یہ ٹاسک فورس جدید آلات سے آراستہ ہے، بحری جہازوں کیساتھ ریڈار اور ایسے میزائل نصب کردیئے گئے ہیں، جو دشمن کے قریب آنے سے پہلے ہی اِسے پکڑلیں گے، اِسکے ساتھ اُن کو 6 پیٹرولنگ جہازوں کی ضرورت تھی، جو چین کی مدد سے تیار کئے جارہے ہیں۔ جن میں سے دو جہاز پی ایم ایس این بنگرول اور پی ایم ایس باسول تیار ہو کر 21 جنوری 2017ء کو پاکستان میری ٹائم سیکورٹی میں شامل ہوگئے۔ چین میں دو جہاز اور تیار ہورہے ہیں وہ جلد ہی پاکستان کو مل جائیں گے۔ یاد رہے کہ یہ جہاز بطور امداد نہیںبلکہ پاکستان اِن کی قیمت ادا کررہا ہے، دو اور جہاز کراچی شپ یارڈ میں تیار ہورہے ہیں جن میں ایک جہاز 600 ٹن کا ہے جوستمبر 2017ء تک مکمل ہوجائے گا اور 1500 ٹن کے مستول کی بنیاد رکھنے کی یہ تقریب تھی، ایڈمرل ناصر شاہ نے کچھ دنوں پہلے جب ایک جہاز کو سمندر میں اتارا تھا تو اُسکی جانب اشارہ کرکے کہا تھا کہ یہ ہے پاکستان کی خودمختاری کی علامت یعنی پاکستان اپنے دفاع کی سازوسامان خود بنانے لگے تو اُسکی دوسرے ملکوں پر دفاعی انحصاری ختم ہوجاتی ہے، وہ جہاز ترکی کی مدد سے بنایا گیا تھا، اِس دفعہ کی تقریب پُروقاریت اپنی جگہ مگر پاک بحریہ کی طرف سے ریاست کو توجہ دینے کا عکاس تھی، جو بینرز آویزاں تھے اُن پر لکھا تھا ’’قومی ترقی کا راز۔۔ جہاز سازی، ہمارا عزم۔ بروقت کام کی تکمیل، ہمارا نصب العین۔اعلیٰ کوالٹی اور ہنرمندی باعث بلندی اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے جھنڈے نمایاں تھے۔ اگرچہ میں تو وقت مقررہ پر پہنچ گیا جو مہمانِ خصوصی کی آمد سے آدھ گھنٹہ پہلے تھا مگر ہمارا گمان یہ تھا کہ شاید رانا صاحب دیر سے آئیں تاہم حیرت انگیز طور پر وہ وقت پر تشریف لائے اور تقریب وقت پر ختم ہوگئی۔ ایڈمرل ناصر شاہ نے اپنی تقریر میں اِس جہاز کی تیاری کو پاکستان اور چین کی دوستی کی علامت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اِس شپ یارڈ نے بہت سے جہازوں کی تعمیر کی ہے اور جیو پولیٹکل منظرنامہ میں جہازوں کی تعمیر کی ضرورت کو بڑھا دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ کراچی کا شپ یارڈ جہازوں کی تعمیر، پرانے جہازوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا اور جہازوں کی مرمت کا کام بخوبی کر تا ہے۔ اس وقت تک کراچی شپ یارڈ نے ڈیڑھ ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کئے ہیں اور ہم جہازوں کو تعمیر کے تعین شدہ وقت سے پہلے تعمیر کر ڈالتے ہیں۔ رانا تنویر حسین نے اپنی تقریر میں پاکستان کے طویل بحری ساحل کی حفاظت اور وہاں سے جہازوں کی آمدورفت کو محفوظ بنانے کے عزم کا اظہار اور خصوصاً چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر سے میری ٹائم سیکورٹی کی ذمہ داریاں بڑھ جانے کا ذکر کیا۔ سمندری حدود میں اضافے سے پاکستان کے وسائل میں اضافہ کی نوید سنائی۔ اِس تقریب میں پاکستانی فلیٹ کے سربراہ وائس ایڈمرل عارف اللہ حسینی بھی اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھے۔ بعد میں چائے کے وقفہ کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ کراچی شپ یارڈ خطہ میں سب سے چھوٹا ہے مگر اُسکی کارکردگی شاندار ہے، اس کے پاس کُل 3 برتھیں مگر یہ شپ یارڈ 9 جہازوں کو یا تو بنا رہاہے یا مرمت کرنے میں مصروف ہے یا اُن کو اپ گریڈ کررہا ہے۔ رانا تنویر حسین کو میں نے اُن کا وہ اعلان یاد دلایا کہ ایک تقریب کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ گوادر میں بھی ایک شپ یارڈ بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ وہ منصوبہ وزیراعظم کی میز پر پڑا ہے اور اِس کے بارے میں وہ وزیراعظم کو کئی بریفنگ دے چکے ہیں اور اس بریفنگ میں اُن کو یہ بتایا گیا کہ اگر ایک ہزار کلومیٹر کا موٹر وے بنایا جائے اور وہاں کوئی پنکچر لگانے والے کی دکان نہ ہو تو کار والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا ، اسی طرح پاکستان کے ساحلوں پر زیادہ سے زیادہ شپ یارڈ بنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہزاروں جہازوں کی یہ گزرگاہ اور ان جہازوں کو کسی نہ کسی کام کی ضرورت پڑتی ہے، کسی کے انجن کا مسئلہ ہوسکتا ہے، کسی کوپرزے یاکچھ اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے ، اُن کو دبئی، قطر یا ابوظہبی جانا پڑتا ہے اور اُن کو اس میں زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم نے حکومت سے کسی مالی تعاون کی فرمائش نہیں کی کیونکہ ہماری وزارت اپنے وسائل سے یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے۔اب بس میاں نواز شریف کی اجازت کی ضرورت ہے، میں نے سوال کیا کہ وزیراعظم صاحب ایسے اہم منصوبے کی منظوری کیوں نہیں دے رہے ہیں تو وزیر موصوف کا فرمانا تھا کہ وزیراعظم کی بہت سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور وہ بہت سے معاملات کو دیکھتے ہیں، کبھی نہ کبھی تو اِس کی باری بھی آجائے گی، اس پر میرے ذہن میں کئی سوال اٹھے کہ ہمارے ملک کے حکمراں کس طرح سوچتے ہیں، قطر سے ہمارے تعلقات اچھے ہیں، ایک زمانے میں جاپان سے اچھے تعلقات تھے تو ہم چین کی طرف احتیاط سے رُخ کرتے تھے، یہ ضرور ہے کہ ہم پاکستان کے وزیراعظم کی توجہ اس طرح دلانا چاہیں گے کہ وہ جلد سے جلد گوادر کے شپ یارڈ کی تعمیر کی منظوری دیں تاکہ کراچی شپ یارڈ کی طرح وہ بھی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب کراچی شپ یارڈ کو چلانا ہی مشکل تھا مگر اب وہاں 3 ہزار مزدور، انجینئر اور دیگر عملہ روزی کما رہا ہے اور پاکستان کے خزانے کو بھی بھر رہا ہے۔ اگر گوادر کے شپ یارڈ کی تعمیر کا کام شروع کیا جائے تو اس میں وقت لگے گا اور ممکن ہے کہ کوئی اور اس کی تکمیل کا سہرا اپنے سر باندھے مگر کم از کم اس کی بنیاد کی تختی تو میاں نواز شریف کی ہی لگے گی، جس طرح انہوں نے کراچی کے دو ایٹمی بجلی گھروں کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور وہ چینی انجینئروں سے درخواست گزار ہوئے کہ اس کو اُن کی مدت وزارتِ عظمیٰ میں مکمل کردیا جائے۔ مجھے اُن کی یہ ادا پسند آئی مگر یہ ممکن نہیں تھا تو کم از کم اُن کو یہ احساس توانائی دلاتا رہے گا کہ وہ اِس کے بانیوں میں سے ہیں، جب 2005 میں پہلے کروز میزائل کا تجربہ ہوا تھا تو میں جدہ میں انکے ساتھ بیٹھا ہوا تھا وہ بہت مسرور تھے اور کہہ رہے تھے کہ اس کے اجازت نامے پر انہوں نے دستخط کئے ، توقع ہے کہ وہ گوادر کی شپ یارڈ کی تعمیر کا سنگ بنیاد جلد رکھ دیں گے۔

.
تازہ ترین