• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے پچھلے کالم میں یہ بات کسی حد تک مختصراً کہی تھی کہ کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ بات کراچی اور اس کے عوام کے مفاد میں ہے کہ کراچی کو آنکھیں بند کرکے Horizantally (افقی طور پر) اور Verically (عمودی طور پر) بے پناہ حد تک توسیع دی جائے مگر کیا یہ بات کراچی اور اس کے عوام کے مفاد میں ہے؟ اس سلسلے میں کچھ ہمارے بھائی کراچی کو غلط یا صحیح وسیع سے وسیع تر کرنے کے اس حد تک حامی ہیں کہ آج کراچی مسائلستان بن گیا ہے‘ ہمارے ان بھائیوں کی اکثریت کیونکہ کافی دور سے آکر یہاں آباد ہوئی ہے لہٰذا یہ ہمارے بھائی نہ کراچی کی ابتدائی تاریخ (جس کا میں نے مختصر ذکر پچھلے کالم میں کیا ہے) سے واقف ہیں اور نہ کراچی کو درپیش جغرافیائی اور خاص طور پر ماحولیاتی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ میں ملک کے سابق آمر ایوب خان کے سخت نقادوں میں سے ہوں مگر میں نے ان کی ایک بات کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ یاد رہے کہ ایوب خان کہتے تھے کہ پاکستان کوایٹم بم تباہ نہیں کرسکتا البتہ آبادی کا بم پھٹنے سے ملک میں واقعی وسیع تباہ کاری آسکتی ہے مگر جغرافیائی اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے ناواقف ہمارے بھائیوں نے اس بات پر کان نہیں دھرے‘ آج ملک کی آبادی جس حد تک بڑھی ہے اس کا شکار فقط کراچی نہیں بلکہ سارا ملک ہے۔اس کی تین وجوہات ہیں۔ ایک تو وجہ بے پناہ برتھ ریٹ ہے جس کے نتیجے میں خاندان وسیع سے وسیع تر ہوتے جارہے ہیں جبکہ چند سرمایہ دار اور جاگیر داروں کے علاوہ عام غریب لوگ اور متوسط لوگوں کے خاندان تو وسیع سے وسیع تر ہورہے ہیں لیکن ان کے وسائل کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ خاص طور پر کراچی میں آبادی بڑھنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ 1947 ء سے لیکر آج تک ملک کے پسماندہ علاقوں میں نہ ترقی لائی گئی اور نہ دیگر ضروری سہولتیں فراہم کی گئیں لہٰذا ان علاقوں کے لوگوں کی مجبوری تھی کہ اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے وہ شہروں کا رخ کریں۔ اس سلسلے میں ان سب محروم لوگوں کی اولین ترجیح کراچی تھا‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ واحد صوبہ تھا جس کے دیہی علاقوں کے لوگوں نے ایک لمبے عرصے تک کم سے کم تعداد میں کراچی اور دیگر شہروں کا رخ کیا‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت دریائے سندھ پر نہ ڈیم بنے تھے اور نہ لنکس بنے تھے‘ لہٰذا سندھ میں فصلوں کے لئے بے دریغ پانی تھا‘ یہ ہاری لوگ اچھی فصلیں اگاکر اپنا وقت اچھے طریقے سے گزارتے رہے تھے‘ یہ صورتحال تو اب پیدا ہوئی ہے کہ دریائے سندھ میں ڈیم اور پنجاب کی حد تک دو تین لنکس بنائے جانے کے علاوہ 1999 ء سے غیر قانونی طور پر پنجاب اور سندھ میں پانی کی تقسیم‘ نام نہاد ہسٹاریکل یوزز کی بنیاد پر کرنے کے بعد دریائے سندھ سے ملنے والے پانی کی مقدار بے پناہ حد تک کم ہونے سے سندھ میں نہ فصل متوقع مقدار میں کاشت ہونے لگی اور نہ مختلف ضروریات کے لئے مطلوبہ پانی فراہم ہوسکا۔ حتیٰ کہ کوٹری بیراج کے نیچے تو سیلابی موسم کے علاوہ پانی کے بجائے ریت اڑتی ہوئی نظر آتی ہے‘ اس خشک سالی کی وجہ سے اب کچھ سالوں سے سندھ کے دور دراز علاقوں سے بھی لوگ بڑی تعداد میں کراچی کی طرف منتقل ہوئے ہیں یا منتقل ہورہے ہیں‘ سندھ کے علاوہ بلوچستان اور سندھ یا بلوچ اور سندھی تاریخی اور جغرافیائی طور پر جڑواں بھائی رہے ہیں لہٰذا بلوچ بھی بشمول کراچی سندھ کے دیگر بیشتر علاقوں میں آباد ہیں‘ مگر ان میں اور اصل سندھیوں میں کوئی فرق نہیں‘ اب تو ان دونوں برادریوں کی زبان اور کلچر بھی کم و بیش ایک ہوگیا ہے۔ علاوہ ازیں پنجابی بھائی بھی بڑی تعداد میں سندھ میں آباد ہیں‘ ایک تو پنجابی بھائی بڑی تعداد میں پاکستان بننے سے پہلے 1930 ء سے بھی پہلے سندھ کے مختلف علاقوں میں کھیتی باڑی کے حوالے سے آباد ہیں لہٰذا اصلی سندھیوں اور ان پنجابی بھائیوں میں بھی کوئی خاص فرق نہیں‘ خاص طور پر دیہات میں رہنے والے پنجابی تو اکثر زبان بھی سندھی بولتے ہیں تو لباس بھی باقی سندھیوں جیسا پہنتے ہیں البتہ کیونکہ کراچی میں ایک پورٹ تو پہلے ہی تھی مگر بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے قاسم پورٹ کے نام سے کراچی میں ایک اور پورٹ بھی بنادی‘ اب بیرون ملک سے برآمد اور درآمد تو ان دو سمندری پورٹس سے ہی ہوتی تھی لہٰذا پنجاب کے سرمایہ دار بڑے پیمانے پر کراچی منتقل ہوگئے‘ ان میں سے کافی تعداد میں لوگوں نے کراچی میں بڑے بڑے شو روم اور تجارتی آفس قائم کیے‘ کافی لوگوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں دکانیں کھولیں تو کافی بڑے سرمایہ دار پنجابی بھائیوں نے کراچی کے صنعتی علاقوں میں کئی صنعتیں قائم کردیں چونکہ سب سے کم سہولتیں دور دراز علاقوں میں رہنے والے پختونوں کو حاصل تھیں لہٰذا کے پی، فاٹا وغیرہ سے بڑے پیمانے پر غریب اور مفلوک الحال پختون کراچی منتقل ہوتے گئے‘ ابتدا میں تو یہ غریب پختون بوٹ پالش اور ہوٹلوں میں بیرہ گیری کرتے تھے مگر اب ہر شعبے میں ان کی ایک بڑی تعداد ہے۔ کراچی میں آبادی بڑھنے کی ایک اور بڑی وجہ غیر قانونی طور پر رہنے والے غیر ملکی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات کا تو سب کو علم ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے بیشتر علاقوں سے جن میں یو پی‘ سی پی‘ بہار اور سندھ سے منسلک ہندوستان کے علاقوں سے آنے والے بھائیوں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد ہے جہاں تک غیر ملکیوں کی کراچی آمد کی بات ہے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے کچھ بھائی جو نہ فقط 1947 ء کے بعد مگر 1954 ء کے بعد بھی پاکستان منتقل ہوئے اور ان کی بھی اکثریت کراچی آکر بسی ان میں سے کئی کی رائے ہےکہ کراچی آکر بسنے والے غیر قانونی غیر ملکیوں کو اپنایا جائے تاکہ وہ بھی ان کا حصہ بن جائیں اس طرح ان کے کچھ قائدین کی طرف سے سندھ کی تقسیم یا کراچی صوبہ بنانے کے مطالبہ کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بڑھائی جاسکے‘ یہ سب درست مگر اس کے نتیجے میں کیا ہوا؟ کراچی Horizontally اور Vertically بے دریغ طور پر اور بغیر کسی منصوبہ بندی سے وسیع ہوتا جارہا ہے‘ کراچی کے کچھ علاقوں میں 20منزلہ اور 30 منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی بھرمار ہے اور اس سلسلے میں ریس ابھی جاری ہے دوسری طرف زمینی طور پر بھی کراچی کو زیادہ سے زیادہ وسیع کیا جارہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ سب کرتے وقت نہ کوئی منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور نہ کل کے بارے میں سوچا جارہا ہے‘ حالانکہ کراچی میں کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ایسے دیگر ادارے رہے ہیں مگر ان اداروں نے اس سلسلے میں کیا منصوبہ بندی کی آج ایک طرف سمندر پر کچھ اہم اداروں کی سوسائٹیوں نے چڑھائی کر رکھی ہے تو دوسری طرف کراچی کے باہر جو اینگل نظر آیا اس کے رخ میں کراچی کو بڑھاتے جارہے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ ان علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی گاڑیاں کہاں کھڑی ہوں گی‘ اتنے وسیع کراچی میں رہنے والے لوگوں کے لئے پینے کا پانی کہاں سے فراہم ہوگا۔ آج سارا کراچی کچرا بن چکا ہے‘ پینے کے لئے پانی نہیں۔بس کراچی ایک ایسا مسائلستان بن چکا ہے جہاں رہنے والے ایک شدید عذاب میں ہیں۔

.
تازہ ترین