• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کا موسم سراغ دے رہا ہے اور صحافتی چھٹی حس کہہ رہی ہے کہ سیاسی اُفق پر نئے ستارے بننے والے ہیں۔غالب نے کہاتھاکہ
زمانہ عہد میں اس کے ہے محو ِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے
سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور اب فیصلہ آنا باقی ہے ۔ معزز ججوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسا فیصلہ کریں گے کہ آئندہ 20سال بعد بھی کوئی اس پر اعتراض نہ کرسکے ۔پانامہ کیس 126دن تک جاری رہا ،اس دوران 35سماعتیںہوئیں جن میں 94گھنٹے دلائل اور 300کیسز کے ریفرنسز دئیے گئے۔ عدالت کے سامنے 24ہزار دستاویزات پیش کی گئیں۔تکنیکی طور پر یہ دستاویزات کس قدر مصدقہ اور متعلقہ ہیں اس کا فیصلہ بھی عدالت ہی کرے گی لیکن عوامی سطح پر ابھرنے والا تاثر یہ ہے کہ ان میں بیشترخطوط اوراخباری تراشوں پر مشتمل صفحہ ِقراطیس ہیں ۔پانامہ کیس میں وزیر اعظم نوازشریف اور ان کے اہلِخانہ مدعاعلیہ ہیں اور اپوزیشن کے بعض قائدین جن میں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید شامل ہیں وہ مدعی ہیں۔یہ کیس عدالت کے ساتھ ساتھ میڈیا میں بھی لڑا جارہاہے ۔گزشتہ رات ایک دلچسپ ٹاک شو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں شیخ رشید کی ’’شیخیاں‘‘ اپنے عروج پرتھیں۔تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ عدالت کا فیصلہ جو بھی ہولیکن شیخ رشید ایک پیشہ ور وکیل کے طور پر یہ کیس جیت چکے ہیں۔یہ بھی کہاگیاکہ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری تھے مگر آپ نے تو انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیا۔یہ سنتے ہوئے شیخ رشید عجز وانکساری کاپیکر بن گئے اور کہنے لگے ۔ایسی بات نہیں ،نعیم بخاری کی وکالت 40سال پر محیط ہے ۔اینکر پرسن نے دوبارہ لقمہ دیا۔لیکن اصل مقدمہ تو آپ نے لڑا ہے، آپ کویہ سب کیسے پتہ تھاکہ آپ کے بیان کردہ نکات اتنے اہم ہیں؟ اس بار شیخ رشید نے تفاخرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اردو کے ساتھ انگریزی کا بھی استعمال کیا۔۔۔ میں خودکش سیاستدان ہوں ،مجھے پتہ ہے کہ آئین کے آرٹیکلز باسٹھ اورتریسٹھ سے انحراف کے کیانتائج نکل سکتے ہیں؟ میرے نزدیک پانامہ کیس میں سب سے اہم نکتہ غلط بیانی سے کام لینا ہے۔ شیخ صاحب اینکر سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے آپ نے کہاکہ عدالت میں اصل مقدمہ میں نے لڑا ہے تو اس کے لئے میں کہوں گا کہ ’’ آئی ایم اے لائر بٹ ناٹ پریکٹیشنر لائر‘‘۔ شیخ صاحب کا جملہ سن کر مجھے بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان یاد آگیا جس نے اپنی فلم ’’مائی نیم از خان ‘‘ میں ایک ڈائیلاگ بولا تھاجسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی کہ ’’مانی نیم از خان اینڈآئی ایم ناٹ اے ٹیرسٹ‘‘۔ کنگ خان بار بار کہتے رہے کہ وہ ٹیرسٹ نہیں ہیں لیکن شیخ صاحب سرعام کہتے ہیں کہ وہ خودکش سیاستدان ہیں۔ شیخ صاحب اگر واقعی خودکش ہیں تو ان کے سہولت کار کون ہیں؟
ان دنوں شیخ رشید کی ایک لفظی ترکیب ’’ٹرپل ایس‘‘ بھی مقبول ہے ۔جس کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد شارٹ ، سویٹ اور اسمارٹ سے ہیں۔شیخ صاحب کا یہ قول زریں اس صحافتی اصول سے مستعار دکھائی دیتا ہے جو ’’ٹرپل بی ‘‘ کہلاتاہے ۔براہ کرم اس سے مراد ٹر پل ون بریگیڈ نہ سمجھئے گایہ ایک صحافتی ترکیب ہے جسکامطلب بریف ،برسکی اوربرائٹ ہوتاہے۔ یعنی مختصر ،تیز اور روشن ۔ہم نے جب پیشہ ورانہ صحافت کا آغاز کیاتو اساتذہ نے سرخیاں جمانے کیلئے ٹرپل بی کا اصول سمجھایاتھا۔شیخ رشید کی اس ٹرپل ٹریل سے ہمیںبالی وڈ کے آنجہانی شومین راج کپور کی فلم ’’ستیم شیوم سندرم ‘‘ یاد آگئی ۔اس وقت کے میڈیانے اس بھاری بھرکم نام کی بجائے اسے ’’ٹرپل ایس ‘‘ لکھا تھا۔ ٹرپل ایس اس وقت کی مس انڈیا اور ساحرہ زینت امان کی پہلی فلم تھی ۔ جس میں زینت امان نے بولڈ انداز میںکام کیا، مجھے یاد ہے بھارتی میڈیا جسے آزاد اور روشن خیال ہونے کا زعم بھی ہے اس نے شومین راج کپور اور زینت امان پر کڑی تنقید کی تھی۔بھارتی میڈیا میں تو دونوں پر تنقید ہوئی پاکستانی میڈیا میں بھی بہت کچھ ہوا۔ حالانکہ بھارتی شومین کی اس کاوش سے پاکستانی براہ راست متاثر نہیں ہوئے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں بھارتی فلموں کی نمائش پاکستانی سینمائوں میں نہیں ہوتی تھی۔
البتہ اہالیان وطن نے وی سی آر پر ٹرپل ایس دیکھتے ہوئے گھسا دی تھی۔ اس وقت پاکستانی میڈیا بھی درگزر کرتاتھا وگرنہ راج کپور اور زینت امان کے خلاف فحاشی اورعریانی پھیلانے کا پرچہ درج کر کے پاکستانی سرکٹ میں دونوں کے لئے باقاعدہ HEAD MONEY(سرکی قیمت) بھی مقرر کردی جاتی۔
زینت امان پاکستان آئیں تو انہیں دیکھ کر بڑا دکھ ہوا۔دکھ اسلئے نہیں ہوا تھاکہ وہ پاکستان کیوں آئیں ،دل رنجیدہ اسلئے تھاکہ وہ ٹرپل ایس کے زمانے میں یہاں کیوں نہ آئیں ۔ یہ 80کی دہائی کا زمانہ تھا ملک پر جنرل ضیاالحق کی مارشل لائی حکومت تھی اور ہم جیسوں کے دلوں پر زینت امان راج کررہی تھیں۔وہ گیت جو لتا منگیشکر نے گایاتھا ’’بھور بھئی پنگھٹ پہ ، موہے نٹ کھٹ شام ستائے ‘‘اس میں زینت امان صبح سویرے گھگری اٹھائے پنگھٹ پر جاتی دکھائی گئی ہیں ،راج کپور فلم جینس تھے جو اس کاروبار کو خوب سمجھتے تھے انہوں نے اس سچویشن میں اونچی لمبی زینت امان کو جنگل بیابان میں گھکری ،دوپٹے اورتنیا کیساتھ فلمبند کرکے اپنے لئے داد وتحسین کا سامان پیدا کیا۔ یہاں لاہور میں میں نے زینت امان سے کہاکہ ماضی میں بالی وڈ اسٹارز اور پاکستانی کرکٹرز کے افیئرز رہے ۔کرکٹ کے ایک یاد گار کپتان کی تو آپ بھی دیوانی رہیںوہ لواسٹوری تو شیئر کریں ۔اس پر زینت امان نے کہاکہ اب چھوڑئیے پرانی باتوں کو بچے بڑے ہوگئے ہیں۔رومانوی کہانیاں ہوںیا مبینہ کرپشن کی داستانیں اس میں یہی ہوتاہے کہ بچے بالآخر بڑے ہوجاتے ہیں۔بقول شیخ رشید فرق صرف یہ ہے کہ غریبوں کے بچوں کے ابھی شناختی کارڈ بھی نہیں بنتے دوسری طرف اشرافیہ کے بچے کروڑوں اربوں کی جائیدادیں بنالیتے ہیں۔سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہاہے کہ عوامی خواہشات نہیں قانون کے مطابق فیصلہ ہوگا،مختصر فیصلہ نہیں دے سکتے ہزاروں کاغذات دیکھنے ہیں اور 99.9فیصد مسترد ہوجائیںگے۔عمران خان اس سیاسی حسن اتفاق پر خوش ہیں کہ پہلی بار منتخب وزیر اعظم کی تلاشی ہوئی حالانکہ اس ملک میں منتخب وزیر اعظم کو پھانسی بھی دی گئی ۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں پانامہ کیس کا فیصلہ جو بھی ہو حکومتی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔ دوسری جانب انقرہ سے خبر آئی ہے کہ پانامہ کیس کے حوالے سے عدالت کی طرف سے فیصلہ محفوظ کرنے کے سوال پر وزیر اعظم نے بھرپور انداز سے مسکراتے ہوئے کہاکہ میں جس کام سے آیا ہوں مجھے وہ کرنے دیں۔آج بس اتناہی آخر میں غالب کا شعر سنئے
نصیر دولت ودیں اور مُعین ِملت و مُلک
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کیلئے


.
تازہ ترین