• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان اللہ مروت کی پی پی میں شمولیت کاتنازع

Irfan Ullah Marwat Ppp Joining Dispute
افضل ندیم ڈوگر...... سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات میں پیپلز پارٹی میں مبینہ شمولیت کے بعد بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیوں کے تنقیدی بیان کا نشانہ بن کر لاتعلقی کرنے والے عرفان اللہ مروت، وینا حیات کیس منظر عام پر آنے کے دنوں میں سابق وزیراعلیٰ سندھ جام صادق علی کے صوبائی مشیر داخلہ تھے۔

متعلقین نے انہیں اس گینگ ریپ کیس کا مرکزی کردار جبکہ سندھ حکومت کے تشکیل کردہ اعلیٰ سطحی عدالتی ٹربیونل نے انہیں واقعہ سے لاتعلق قرار دیا تھا ، اُس عرصے میں نوازشریف وزیراعظم پاکستان جبکہ غلام اسحاق خان صدر پاکستان تھے اور پاکستان پیپلزپارٹی زیرعتاب تھی۔

بزرگ سیاسی رہنماء شوکت حیات کی صاحبزادی وینا حیات کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ان دنوں کئی مہینے تک میڈیا کی زینت بنتا رہا، وینا حیات کا اصل نام فرحانہ حیات تھا، اُنہیں بینا قریشی بھی کہا جاتا تھا تاہم وینا حیات کے نام سے مشہور ہوئیں، وہ پیپلزپارٹی کی شہید رہنما کی ڈریس ڈیزائنر تھیں۔

ڈیفنس میں واقع اُن کے گھر پر 27 اور 28 نومبر 1991 کی درمیانی شب ڈکیتی، 12 گھنٹے تک حبس بےجا رکھنے، تشدد اور گینگ ریپ کی واردات ہوئی، فرحانہ حیات کے ساتھ متعدد ملزمان کی زیادتی اور ڈکیتی کا مقدمہ گزری تھانے میں 28 نومبر کو درج کیا گیا تھا۔

مقدمہ نمبر 91/126 زیر دفعہ 3/17، حدود آرڈیننس اور دیگر دفعات کے تحت فرحانہ حیات کے ملازم غلام رسول کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، مقدمہ درج کرانے والا ملازم بعداذاں پراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق مدعی واقعہ سے 5 ماہ قبل فرحانہ حیات کے بنگلے پر ملازم ہوا ،جو اس روز دو دیگر ملازمین کے ساتھ گھر پر تھا اور اُن کی مالکن موجود نہیں تھیں، 27 نومبر کی شام ساڑھے 7 بجے آہٹ سن کر بنگلے کے لان میں آیا تو دیکھا 3 نقاب پوش ملزمان بنگلے کی دیوار کود کر اندر داخل ہوچکے تھے، جنہوں نے اُسے گن پوائنٹ پر لیا اور خاموش ہونے کا کہا، ملزمان کا ایک ساتھی باہر کھڑا ہوا تھا، ملزمان نے اُن تینوں ملازمین کو اسلحے کے زور پر کچن میں لے جاکر باندھ دیا۔

ایک مسلح نقاب پوش اُن کے نگرانی کیلئے کھڑا رہا اور باقی 2 مسلح افراد گھر کی تلاش لینے لگے، ایک گھنٹے بعد تقریباً رات آٹھ بجے اُن کی مالکن فرحانہ اپنی کار نمبر ایچ 8420 پر آئیں، گیٹ پر ہارن بجایا، جس پر ایک مسلح شخص اُسے گیٹ پر لے گیا دروازہ کھلوایا جب مالکن کار سمیت اندر آگئیں تو اُن کے گن مین کو بھی اسلحے کے زور پر لے لیا۔

گن مین کو بھی رسی سے باندھااور مالکن کو بنگلے کی اوپر والی منزل پر لے گئے اور گھر کے تمام کمروں کی تلاشی لیتے رہے، مالکن سے زیورات، اُن کی دستی گھڑی رولیکس، طلائی چوڑیاں، 35 ہزار روپے نقد چھین لیے، ملزمان رات بھر گھر میں رہے اور صبح سات بجے مالکن کی کار میں بیٹھ کر چلے گئے۔

ایف آئی آر کے مطابق مزید تفصیلات مالکن خود بتائیں گی، مدعی کے مطابق ان کا دعویٰ اس میں سکونت نامعلوم نقاب پوش ملزمان پر ہے ،جنہوں نے بنگلے میں داخل ہوکر کار، نقدی اور زیورات چھینے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی تو اسی روز مذکورہ شیراڈ کار کینٹ اسٹیشن کے قریب لاوارث کھڑی مل گئی ، کرائم برانچ پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے دوران تمام ملازمین کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی اور اس کے علاوہ 60 مشتبہ افراد کو بھی حراست میں لے کر تفتیش شروع کردی۔

کرائم برانچ پولیس کے اس وقت کے اے آئی جی جاوید اقبال کی سربراہی میں ڈی ایس پی مسعود حیات، ڈی ایس پی امام بخش، ڈی ایس پی عبدالجبار قریشی، ڈی ایس پی ریاض قریشی اور ڈی ایس پی خواجہ نثار احمد پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات کیں۔

مقدمہ درج کرانے کے بعد لاپتہ ہونے والے مدعی غلام رسول کو بھی احمد پور شرقیہ میں تلاش کیا گیا، جن دنوں یہ واردات ہوئی ان دنوں جام صادق علی کی قیادت میں عرفان اللہ مروت، الذوالفقار نامی ملک دشمن تنظیم کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف آپریشن کررہے تھے، پارٹی کارکنوں کی غیرمعمولی گرفتاریاں کی جارہی تھیں اور کارکنوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک بھی کیا جارہا تھا۔

یہی وہ دن تھے جب پی ایس ایف کی سرگرم کارکن شہلا رضا موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی اور راحیلہ ٹوانہ سابق رکن اسمبلی کو سمیع اللہ مروت کے ذریعے سی آئی اے سینٹر میں گرفتار کرایا گیا، عرفان اللہ مروت کو پیپلز پارٹی کی جانب سے وینا حیات کیس میں سرگرمی سے ملوث کیا گیا۔

واضح رہے کہ وینا حیات کا بنگلہ، عرفان اللہ مروت کی رہائش گاہ کے ساتھ ہی تھا اور وہاں ہر وقت پولیس موجود رہتی تھی، وینا حیات، بے نظیر بھٹو شہید کی قریبی دوست اور ڈریس ڈیزائنر تھیں، جن کا بلاول ہاوٴس میں بھی آنا جانا تھا اور متعلقین کی جانب سے الزام عائد کیاگیا تھا کہ وینا حیات کے گھر واردات کرنے والے ملزمان عرفان اللہ مروت کی جانب سے بھیجے گئے تھے مگر اس کی ہر سطح پر تردید ہوئی۔

بعد ازاں تحقیقات میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، تاہم سندھ حکومت نے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کرائیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالرحیم قاضی پر مشتمل تحقیقاتی ٹربیونل تشکیل دیا گیا جس نے کئی ہفتے بعد تحقیقاتی رپورٹ حکومت سندھ کو پیش کی۔
تازہ ترین