• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچانک لاہور کا لبرٹی چوک فائرنگ اور دھماکوں کی آواز سے گونج اٹھا۔کوئی کچھ نہیں جانتا تھا کہ ہوا کیا ہے۔کچھ دیر بعد قومی و بین الاقوامی نشریاتی اداروں پرچلنے والی خبروں سے معلوم ہوا کہ لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشتگردوں نے حملہ کردیا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں اختلافات عروج پر تھے۔2009میں شریف برادران کی نااہلی کے فیصلے کے بعد پنجاب میں گورنر راج لگادیا گیا تھا۔صوبائی چیف ایگزیکٹیو کی ذمہ داریاں پی پی پی کے گورنر کے پاس تھیں۔اس واقعے کے بعددنیا بھر سے پاکستان پر خوب تنقید کی گئی،بین الاقوامی جریدوں کا خیال تھا کہ گورنر راج حکومت کی نااہل اور کمزور انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا ہے۔بہرحال لاہور میں ہونے والے اس واقعے کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے۔اس واقعہ نے جہاں پاکستانی قوم کو کرکٹ سے دور کردیا وہیں ملک کو بڑا معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔تمام بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں نے ورلڈ کپ کے لئے پاکستان آنے سے انکار کردیا۔جس سے ایک طرف کرکٹ بورڈ کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تو دوسری طرف ملکی معیشت کا گراف بھی تیزی سے نیچے آیا۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل کے انعقاد سے جو فائدہ ہمیں ہوتا اس کے ثمرات براہ راست وطن عزیز کی معیشت پر پڑتے۔سب سے اہم معاملہ ساکھ کا ہوتا ہے۔انٹرنیشنل کرکٹ کے میگاایونٹ کی میزبانی کے بعد قارئین ہماری ساکھ کا بہتر طریقے سے اندازہ کرسکتے ہیں۔لیکن بین الاقوامی لابی کامیاب ہوئی اور یوں میگا ایونٹ کے طے شدہ میچز پاکستان کے بجائے بھارت ودیگر ممالک میں کرائے گئے۔ہمارے قومی ادارے اس وقت دشمن ممالک کی منصوبہ بندی نہیں سمجھ سکے اور یوں پاکستان کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔
آج جس لاہور سے پاکستان میں دنیائے کرکٹ کے دروازے بند ہوئے تھے،وہیں سے بحالی کے سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔وطن عزیز کے موجودہ حالات میں پی ایس ایل کا فائنل کرانا پنجاب حکومت کے لئے بڑا چیلنج تھا۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ اس کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔کیونکہ اگر فائنل میچ کے دوران کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا تو ساری ذمہ داری اس ہی کے کندھوں پر آتی۔آج فائنل کے کامیاب انعقاد کا تو ہر کوئی کریڈٹ لے رہا ہے مگر ناکامی کی ذمہ داری اس کے علاوہ کسی کو قبول نہیں کرنا تھی۔خوشی ہوئی کہ قذافی سٹیڈیم کے رائل ون انکلیو میں تمام سیاسی و عسکری قیادت متحد نظر آئی۔پنجاب کے دل لاہور میں خیبر پختونخوااور بلوچستان کو کھیلتا دیکھ کر دلی اطمینان ہوا۔ملک میں جہاں سے کرکٹ کے سفر میں وقفہ آیا تھا،دوبارہ وہیں سے آغاز ہوچکا ہے۔کافی عرصے بعد سول و عسکری فورسز ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نظر آئیں۔طے شدہ اصول ہے کہ جمہوری حکومتوں میں ڈرائیونگ سیٹ پر سیاسی قیادت ہوتی ہے۔جبکہ عسکری قیادت پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر معاملات میں معاونت کرتی ہے۔لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل نے دل خوش کردیا۔سیکورٹی انتظامات کو فول پروف بنانے کے لئے پولیس کے ساتھ فوج اور رینجرز کے جوان بھی تعینات تھے۔مگر یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ہر جگہ فرنٹ لائن میں پولیس ہی تھی۔عسکری افسران ہر معاملے میں بار بار پولیس کے سینئر افسران سے مشاورت کررہے تھے۔آرمی چیف کا ویژن پی ایس ایل فائنل میں واضح نظر آرہا تھا۔خوشی کی بات ہے ملک کی فوجی قیادت اداروںکو مضبوط کررہی ہے۔پی ایس ایل فائنل کے وقفے کے دوران کھانے کی میز پر گورنر پنجاب و خیبر پختونخواا ور کورکمانڈرلاہور جنرل صادق علی سے طویل گفتگو رہی۔ملک کو درپیش سیکورٹی چیلنجز پر سیر حاصل بات چیت ہوتی رہی۔مگر ایک بات مشترک تھی کہ ہر شخص لاہور میں ہونے والے پی ایس ایل فائنل پر دلی طور پر مطمئن تھا۔نجم سیٹھی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ گفتگو میں بھی شریک ہورہے تھے۔بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے تو نجم سیٹھی کی تجویز منظور کرتے ہوئے زمین دینے کا وعدہ بھی کرلیا۔نجم سیٹھی کی رائے تھی کہ لاہور کے گرد ونواح میں ایسا کرکٹ ا سٹیڈیم بنایا جائے جس میں ایک لاکھ سے زائد کرکٹ شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہو،جبکہ ایک عالی شان فائیو ا سٹار ہوٹل بھی اس کے ساتھ ہی بنایا جائے۔اب طے یہ ہوا ہے کہ اس منصوبے کے لئے زمین پنجاب حکومت دے گی،جبکہ باقی اخراجات پی سی بی برداشت کرے گا۔بہرحال لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے موقع پر جو تاریخی مناظر تھے،وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ایک بدلی ہوئی پنجاب پولیس نظر آرہی تھی۔سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) امین وینس اور ڈپٹی کمشنر لاہورسمیر سیدکو ایک درجن سے زائد اسٹیدیم کے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے تو اس خاکسار نے خود دیکھا ہے۔کسی ایک کی تعریف کرنا ناانصافی ہوگی۔لیکن ہر انتظامی عہدیدار پورے جذبے اور ولولے کے ساتھ فائنل کو کامیاب کرانے کے مشن کے ساتھ نکلا ہوا تھا۔بہرحال پی ایس ایل کے کامیاب انعقاد نے یہ تو ثابت کردیا ہے کہ اگر ہم سب متحد ہوکر،تمام ادارے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں تو کسی بھی قسم کے غیر معمولی حالات میں ہم کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
جاتے جاتے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کا تذکرہ ہوجائے۔الفاظ کا چناؤ سیاستدان کی سیاسی بصیرت اور دانشمندی کو ظاہر کرتا ہے۔لیکن شاید عمران خان صاب کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔عمران خان سے جتنا بھی اختلاف کرلیا جائے مگر ایک بات طے ہے کہ وہ کرکٹ پر ایک ڈگری سمجھے جاتے ہیں۔ایسے شخص کو کرکٹ کے حوالے سے غیر معیاری الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے۔فائنل کی مخالفت کا بیان ہو یا پھر کرکٹرز کی تضحیک،شائقین کرکٹ عمران خان سے کبھی ایسے بیان کی توقع نہیں کرتے۔ انسان کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے ہوتی ہے اس لئے ہمیں ایسے کسی بھی بیان اور اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔

.
تازہ ترین