• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
+3
کر ہِ عرض پہ موجود 169ممالک کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک۔ اِن دو نوں اقسام کا جائزہ لیں تو اس تفریق کے پیچھے ایک بڑی وجہ نظامِ تعلیم نظر آتی ہے۔

بہترین نظامِ تعلیم کی فہرست کو دیکھیں تو سرفہرست جاپا ن ہے ۔آیئے آج اس بات کا جائزہ لیں کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بناء پر جاپان کے تعلیمی ادارے باقی دنیا سے آگے ہیں۔

امریکا میں اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) کے زیرِنگرانی منعقد کردہ بین الاقوامی طالب علم کی تشخیص کا پروگرام (پی آئی ایس اے)جس میں دنیا کےتقریباََ 81 ممالک کے 15 سال کی عمر کے بچے حصہ لیتے ہیں، اس کے نتائج میںگزشتہ سالوں سے جاپانی اسکولوں کے بچوں کی نمایاں کارکردگی حیران کن ہے۔یہ ٹیسٹ ہر 3 سال بعد لیا جاتا ہے۔اس ٹیسٹ میں بچوں کی ریاضی، سائنس اورتعلیمی کارکردگی کو پرکھاجاتا ہے۔

جاپانی اپنی نئی نسل کے علمی سفر کا آغاز ’ اے بی سی ڈی‘ تعلیم کے بجائے اچھی تربیت سے کرتے ہیں۔بچے کے اسکول میں داخلے کے چار سال بعد تک اسے کسی طرح کا امتحان نہیں دینا پڑتا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ دوسرے ممالک میں بیشتر زبانوں کو سیکھنے والے بچے 26 سے 33 حرفِ تہجی یا د کرتے ہیں جبکہ جاپان میں اسی عمر کے بچوں کو’کانجی‘زبان کے 1,006 حرفِ تہجی یا د کرائے جاتے ہیں ۔

وہ صرف چھوٹےموٹے ٹیسٹ دیتےہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسکول کے تین سال بچے کو نظم و ضبط، اچھے آداب اور جانوروں سے نرمی کا درس دینا زیادہ ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو تحمل، ضبط نفس اور انصاف کی خصوصی تعلیم دی جاتی ہے۔

دنیا میںتمام اسکولزاور یونیورسٹیز کا نیا تعلیمی سال ستمبر یا اکتوبر میں شروع ہوتا ہے جبکہ جاپان میںنئےتعلیمی سال کا آغاز اپریل یعنی بہار کے موسم میں کیاجا تا ہے تاکہ آنے والے بچوں کو خوشگو ار ماحول ملے۔اُنھیںموسمِ گرما میں 6 ہفتے اور موسم ِسرما میں 2 ہفتے کی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔

پڑھائی کے ساتھ ساتھ وہاں کےطالب علموں میںاچھی عادات وافکار کیلئے بریک ٹائم میں اُنھیں گروپس میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنے کلاس رومز، کیفے ٹیریا خودصاف کرتےہیں ۔یوںاُنھیں صفائی ،ٹیم ورک اور ایک دوسرے کی مدد کا درس ملتا ہےاور جب وہ جھاڑو پوچھے جیسے کام خودکرتے ہیں تو اُنھیں اُن لوگوں کا بھی احساس ہوتا ہے جو یہ کا م روز انجام دیتے ہیں۔

وہاں زیرِتعلیم بچوں کو دوپہر کا متوازن کھانا فراہم کیا جاتا ہے جسے وہ اپنی کلاس رومز میں اپنےاُستاد کے ہمراہ کھاتے ہیں۔یہ اقدام اُستاد اور طالبِ علموں کے درمیان مثبت تعلقات قائم کرنے کیلئے کیا جا تا ہے۔

اسکول کے اختتام پر بچوں کیلئے غیر نصابی سر گرمیوںکا بھی انتظام ہوتا ہے جس سے فارغ ہوکرشام کے اوقات میں اُن بچوں کو جنھیں زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے اُنھیں گروپس کی شکل میں ورک شاپس کروائی جا تی ہیںتاکہ اُن کی کمزوریوں کو قا بلیت میں تبدیل کیاجا سکے۔

اسکولوں میں بچوں کو جاپانی خطاطی اور شاعری کی تعلیم دی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہارشاعرانہ انداز میں باآسانی کر نے کے اہل ہوجاتے ہیں اور اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ نئی آنے والی نسل کو اپنے معاشرے اور ثقافت کے رنگوں سے روشناس کروایا جا سکے۔

اسکول یونیفارم کا طرز دو اقسام کا رکھا گیا ہے جس میں سے ایک سماجی اور دوسرا ملٹری طرز کا ہوتا ہے۔اس یونیفارم پالیسی کا مقصد طالب علموں کے درمیان سماجی رکاوٹیں ہٹا نا اور ورکنگ موڈ میںلانا ہے۔اس کے علاوہ ایک ہی طرز کے لباس سے ان کے اندر کسی قسم کا اختلاف جنم نہیں لے پاتا۔

جہاںایک طرف ہمارے ہاں کلاسز چھوڑنے کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے تو دوسری جانب جاپان میں کلاسز چھوڑنا تو دور کلاسز میں تاخیر کا بھی کوئی تصوّر نہیںپایاجاتا۔ 91 فیصدطلباء پورے سال حاضر رہتے ہیں جس کی ایک وجہ وہاں کے اساتذہ کا مختلف طرزِتعلیم بھی ہے۔

ہائی اسکول کے اختتام پر طلباء کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہےجو ایک بہت اہم امتحان کی مدد سے کیا جا تا ہے۔جس کے نتائج کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس طالبِ علم کا داخلہ کس کالج میں ہوگا۔

یہ کافی مشکل امتحان ہوتا ہے جسے100 میں سے 76 فیصد بچے پاس کرکے ہائی اسکولز میں جا پاتے ہیں۔بعد کے ادوار کو جاپانی طالبِ علم اپنی زندگی کا بہترین دور کہتے ہیں۔ہائی اسکولز میں جانے سے پہلے جاپانی طالب علموں کو چھوٹا سا وقفہ دیا جا تا ہے۔ اکثر طالبِ علم اسے کام سے پہلے آرام کا نام دیتے ہیں۔

یہ ہیں وہ وجوہات جن کی بنا پر دنیا کے لاکھوں نظامِ تعلیم میں جاپانی نظامِ تعلیم پہلے نمبر پرسمجھا جاتا ہے۔ہمیں بھی چاہئے کہ اپنے فرسودہ نظامِ تعلیم کو بہتری کی جانب لائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں مثبت اور بہتر پاکستان دیکھ سکیں۔
تازہ ترین